لندن (آصف ڈار) 2022ء کا سورج جہاں کورونا وائرس کے خاتمے کی خوشخبری لایا وہیں ملکہ برطانیہ کو اپنے ساتھ لے کر رخصت ہوگیا۔ اس سال برطانیہ نے پہلی مرتبہ تین وزرائے اعظم دیکھے۔ 2019ء سے2022ء کے وسط تک کورونا وائرس کی مختلف اقسام نے پوری دنیا کو خوف میں مبتلا رکھا۔ 75لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے تاہم ویکسین کی وجہ سے اس سال لوگ کورونا کے باعث خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے۔ جون 2022ء میں برطانوی حکومت نے لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس کے بعد پاکستان سمیت درجنوں ملکوں کیلئے بنائی گئی ریڈ لسٹ کو بھی ختم کردیا گیا اگرچہ کورونا ختم ہوگیا، تاہم اس سے پہلے کہ معیشت کو سنبھالا ملتا، روس، یوکرین جنگ نے یورپ اور یوکے کو مہنگائی اور انرجی بحران کی کھائیوں میں دھکیل دیا۔ مہنگائی کے خلاف برطانیہ بھر کی یونینوں نے اس سال زبردست مظاہرے کیے اور جلوس نکالے۔ روس کی جانب سے یورپ کو بجلی و گیس کی سپلائی بند ہونے کے بعد برطانیہ میں انرجی بلوں میں 50فیصد ہوگیا جب کہ سرکاری و غیر سرکاری ملازمین مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آئے تو تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر این ایچ ایس کی نرسز، ایمبولینسز و فائر بریگیڈ کے عملے، پوسٹل ورکرز، انڈر گراؤنڈ، ٹرینز اور بسز کے عملے نے کئی کئی دن کی ہڑتال کیں۔ یہ سلسلہ2023ء میں بھی جاری رکھے جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ 2022ء نے جہاں برطانوی عوام کو ملکہ الزبتھ کی پلاٹینم جوبلی کی تقریبات کی خوشیاں دیں وہیں ان کے انتقال کا صدمہ بھی دیا۔ ملکہ الزبتھ دوئم کی جوبلی تقریبات2سے5جون تک ہوئیں اور وہ8ستمبر کو96سال کی عمر میں70برس214دن تک برطانیہ پر حکومت اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے کے بعد رخصت ہوگئیں، ان کی جگہ ان کے سب سے بڑے صاحبزادے شہزادہ چارلس نے لی ہے جو طویل انتظار کے بعد اب برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے ہیں، ملکہ برطانیہ نے برطانیہ میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ 2022ء برطانیہ کے لیے اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران کا سال بھی ثابت ہوا۔ وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف ان کے اپنے ہی وزراء نے بغاوت کردی۔ جن میں موجودہ وزیراعظم رشی سوناک اور سابق چانسلر ساجد جاوید شامل تھے، نصف سے زیادہ وزراء کے استعفوں اور ٹوری ارکان پارلیمنٹ کے دباؤ کے بعد بورس جانسن مستعفی ہوگئے، قواعد کے مطابق پارٹی لیڈر شپ کے لیے انتخاب ہوا تو لز ٹرس نے میدان مار لیا مگر ان کی حکومت محض45دن تک ہی چل سکی، دوبارہ انتخاب ہوا تو رشی سوناک پہلے بھارت نژاد وزیراعظم بن گئے، اس سارے بحران کے دوران پاکستان کی طرح نہ تو کسی نے دوسرے کو چور، ڈاکو کہا، نہ مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا، اس سال وزیراعظم میاں شہبازشریف کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں کلین چٹ دی، جب کہ میل آف سنڈے نے بھی ان پر لگائے گئے الزامات پر غیر مشروط معافی مانگ لی، اس طرح وہ ان دونوں کیسوں میں سرخرو ہوئے، اسی سال پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیراعظم شہبازشریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز جلا وطنی ترک کرکے واپس پاکستان گئے جب کہ مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز اپنے خلاف کیس میں بری اور پاسپورٹ ملنے کے بعد اپنے والد میاں نوازشریف سے ملنے اور طبی معائنے کے لیے برطانیہ آئیں۔ برطانیہ میں اس سال بھی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف مظاہرے جاری رکھے اور پاکستانی کمیونٹی انتشار کا شکار رہی جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جبر و تشدد کے خلاف برٹش کشمیریوں کے احتجاجی مظاہرے بھی حسب معمول جاری رہے۔ حکام کے دعوؤں کے باوجود اس سال بھی برطانیہ اور یورپ کے لیے قومی ائر لائنز پی آئی اے کی پروازیں بحال نہ ہوسکیں۔ یہ پروازیں گزشتہ تین برس سے بند ہیں، جس کے باعث پاکستانی کمیونٹی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اس سال ایسٹ لندن کے علاقے الفورڈ میں ایک پاکستانی طالبہ حنا بشیر کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے سلسلے میں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر رکھا ہے، جس کے خلاف مقدمہ کی سماعت کا آغاز جون2023ء میں ہوگا۔ اس سال فرانس کے ذریعے سمندری راستے سے40ہزار سے زیادہ تارکین وطن برطانیہ میں داخل ہوئے جبکہ برطانیہ اور فرانس نے اس سلسلے کو روکنے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسی سال اسائلم سیکرز کو افریقی رونڈا میں رکھنے کے پروگرام پر عملدرآمد ہوگیا ہے۔