بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں ہی حل کرنے کے نعرئے کے تحت 2018 کے انتخابات کے موقع پر وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی صوبے میں اقتدار میں ہونے کے باوجود ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہے ، اگرچہ سیاسی حلقوں میں اپنے قیام کے وقت ہی سے بی ائے پی پر سوال اٹھتے ائے ہیں تاہم اس وقت پارٹی کے تین موجودہ ارکان بلوچستان اسمبلی پارٹی سے اپنے رشتے ناطے توڑتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
گزشتہ دنوں پی پی پی کے شریک چیئرمین سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد تین سابق صوبائی وزرا و موجودہ ارکان اسمبلی نے اپنے مستقبل کا سیاسی سفر پی پی پی کے پلیٹ فارم سے جاری رکھنے کا اعلان کیا جبکہ صوبے سے مزید اہم سیاسی شخصیات کا رحجان پیپلز پارٹی کی جانب نظر آرہا ہے، اپنے تین ارکان بلوچستان اسمبلی کی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے پر بلوچستاان عوامی پارٹی (باپ) کے بانی رہنما سنیٹر سعید ہاشمی نے کچھ یوں تبصرہ کیا کہ بچوں کے بچھڑ جانے کا باپ کو افسوس تو ہوتا ہے لیکن بچے جہاں رہیں خوش رہیں جس سے پارٹی کے بزرگ رہنما کی ایک جانب اپنے سابق ارکان کے لئے جہاں دعا کا پہلو نظر آتا ہے تو دوسری جانب ان کی مایوسی کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام میں مسلم لیگ (ن) کے ان رہنماوں کی غالب اکثریت شامل تھی جو 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر مختلف ایوانوں کے منتخب نمائندئے یا پارٹی رہنما تھے، بلوچستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ ماضی میں بھی جب مسلم لیگ (ق) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو تب بھی میاں نواز شریف کے ساتھ رہنے رہنماوں نے بلوچستان میں (ق) لیگ بنائی تھی ، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں بننے والی صوبائی حکومت کو ان کی اپنی جماعت کی جانب سے مشکلات کا سامنا رہا پہلے تو باپ انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے مشکلات کا نظر آئی تو پھر جام کمال خان کے خلاف ان کی اپنی ہی جماعت کے ارکان عدم اعتماد لاکر انہیں ہٹانے اور میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے ، باپ چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہونے والے ارکان بلوچستان اسمبلی جام کمال خان کے قریبی رفقا سمجھے جاتے ہیں اگرچہ اب تک جام کمال خان یا ان کے دوستوں کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ تو نہپیں دیا گیا ہے کہ جام کمال خان بھی پی پی پی میں شامل ہوں گے یا نہیں لیکن سیاسی حلقوں میں ایک گروپ میں اس بات کو تقویت ہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی پی پی پی میں شامل ہوں گے۔
لیکن بلوچستان میں سیاسی حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت اور مشکل ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں اہم سیاسی تبدیلیاں بہت کم وقت میں نظر آئیں جن میں کوڈ بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام بھی شامل ہے تاہم پی پی پی کی صوبائی قیادت پرامید ہے کہ موجودہ بلوچستان اسمبلی کے دیگر ارکان سمیت صوبے کی ممتاز شخصیات پارٹی میں شامل ہوجائیں گی اور پارٹی کی صوبائی قیادت پوری طرح سے پرامید ہے کہ نہ صرف صوبے کی اہم شخصیات یا جن کے لئے موجودہ دور میں الیکٹیبلز کی اصطلاح استعمال کی جاتی پارٹی میں شامل ہوجائیں گی بلکہ صوبے کی آئندہ حکومت بھی پیپ]لز پارٹی کی ہوگی ، پیپلز پارٹی 2008 کے انتخابات میں شہید بینظیر بھٹو کے بغیر انتخابات میں گئی تھی اور مرکز کی طرح بلوچستان میں بھی 1970 کی دہائی کے بعد صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
نواب محمد اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی پی پی پی کی صوبائی حکومت کو اس کی اپنی ہی مرکزی قیات کی جانب سے اس وقت صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے باعث ختم کیے جانے کے بعد گزشتہ دو انتخابات یعنی 2013 اور 2018 میں بلوچستان اسمبلی تک رسائی تک حاصل نہ کرپائی بلکہ صوبے میں ہونے والے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی کسی قسم کی قابل زکر کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی، 2018 کے انتخابات کے بعد بننے والی بلوچستان اسمبلی جس کی مدت پوری ہونے میں اب جبکہ چند ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے یہ بات بھی واضح ہے کہ بعض اہم سیاسی شخصیات اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پی پی پی میں شامل ہوں گی تو شائد ابھی کچھ شخصیات ہوا کا رخ دیکھ رہی ہیں جس کے بعد سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔
جیسا کے پہلے بھی یہ زکر آچکاہے کہ اس اسمبلی میں پی پی پی نمائندگی سے محروم تھی تاہم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان چیف آف جھالاوان نواب ثنا اللہ خان زہری کی اپنی سابق جماعت مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت سے اختلافات کے بعد مسلم لیگ (ن) سے مستعفی اور پی پی پی میں شامل ہونے کے بعد پی پی پی کو بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوئی تاہم اب بلوچستان عوامی پارٹی کے تین تین ارکان اسمبلی کی شمولیت سے اس نمائندگی میں اضافہ ہوگیا ہے، صوبے کی سیاسی حلقوں میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی بقا کا موضوع بھی زیربحث ہے اس کی وجہ پارٹی کے اپنے ہی بعض رہنماوں کی جانب سے آنے والے بیانات بھی ہیں ، جن کو ان کی اپنی جماعت کے رہنماؤں نے ہی دیا اور انہیں یقین ہے کہ باپ مستقبل میں بھی متحد رہے گی۔
تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی بلوچستان میں بڑھتی دلچسپی اور سیاسی رہنماوں سے رابطوں نے بھی کئی ایک اہم سیاسی شخصیات کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور بعض سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ بلوچستان میں پی پی پی کی مرکزی قیادت حکومت بنانے میں سنجیدہ ہے اور نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی بلکہ کچھ اور جماعتوں کے رہنما بھی پی پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں، پیپلز پارٹی سے قبل بلوچستان میں جمعیت علما اسلام صوبے کی اہم شخصیات کی شمولیت سے پہلے سے زیادہ مضوط پوزیشن میں آگئی ہے جمعیت علما اسلام بلوچستان میں نہ صرف سیاسی جماعت کے حوالے سے بلکہ پارلیمانی حوالے سے بھی صوبے کی اہم اور موثر جماعت ہے موجودہ اسمبلی میں بھی اس کے 12 ارکان موجود ہیں تاہم اس بار جمعیت علما اسلام صوبے کے بلوچ بیلٹ سے سابق وزیراعلیٰ چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی سمیت کئی ایک سابق ارکان اسمبلی سمیت سمیت دیگر اہم شخصیات کی حمایت حاصل کرنے کے بعد زیادہ مضبوط پوزیشن میں آگئی ہے۔ تاہم بلوچستان میں ماضی کو مدنظر رکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا اور صوبے کی آئندہ حکومت کس جماعت کی ہوگی۔