لندن (سعید نیازی) سینئر پاکستانی صحافی اور دانشور مشرف زیدی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر خطے میں امن کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بات برطانوی پارلیمنٹ میں برطانوی فارن افیئرز کمیٹی کے سامنے کیں، اس موقع پر مختلف بااثر شخصیات نے کمیٹی کے سامنے گواہی دی، امریکہ کی سب سے بڑی اور پرانی جنگی کمانڈ کے جھکائو کے حوالے سے منعقد انکوائری میں گواہی کیلئے پیش افراد سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ بھارت برطانیہ کی خارجہ و دفاعی پالیسیوں کیلئے موزوں ہے؟، کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والوں میں امریکہ میں بھارت کے سابق سفیر اسوک مکرجی، بھارت میں سابق برطانوی ہائی کمشنرسرڈومینک سکوتھ، کنگز کالج لندن میں انٹرنیشنل ریلیشن کے سینئر لیکچرار والٹر لاڈوک، سینئر صحافی مشرف زیدی، جرمن مارشل فنڈ آف دی یو ایس کی سینئرفیلیو گریما موہن اوربھارتی سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ثالث امن ہنگورانی شامل تھے۔ بھارتی مندوبین نے کہا کہ بھارت تیزی سے گلوبل پاور بن رہا ہے اور وہ انڈین اوشن میں سیکورٹی کا ضامن بن سکتا ہے اور بھارت اور برطانیہ کو ہر شعبہ میں تعاون بڑھانا چاہئے لیکن پاکستانی مندوب نے انہیں چیلنج کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل ہوئے بغیر آگےبڑھنا ناممکن ہے، اس مسئلہ کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور بھارت کے اس حوالے سے چین کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں اور ایک مسئلہ کے تین فریق ہیں اور جوکہ تینوں ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مشرف زیدی نے اس موقع پر جنگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت صرف ہمارے خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بڑی معاشی پاور بننے جا رہا ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار نہیں کرے گا لیکن میں نے یہ سوال اٹھایا کہ برطانوی اداروں کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا ان کے جو اہداف ہیں بھارت میں مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں حاصل کئے جا سکتے ہیں، اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو برطانیہ، امریکہ یا دیگر ممالک کی ترجیحات کا حصول آسان ہو جائے گا، انہوں نے کہا کہ انڈو پیسفک فریم ورک کے تحت برطانیہ اور بھارت کے بہتر تعلقات کے حوالے سے کام کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد چین کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ اور اب بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا بھارت کی ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ مشرف زیدی نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ یہ تاثر بھی رہے کہ وہ چین کے بہت خلاف ہے لیکن چین کے خلاف وہ ایک حد تک جا سکتا ہے جب تک وہ حدیں پار نہیں ہوتیں وہ یہ ہی سودا فروخت کرتا رہے گالیکن بھارت اور چین کے درمیان تجارت حالیہ برسوں میں تیزی کے ساتھ بڑھا ہے، اسی طرح بھارت کے روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، باوجود اس کے کہ بیانات کی حد تک انہوں نے یوکرین کا ساتھ دیا ہے۔ بھارت کی اپنی مجبوریاں ہیں جن کے سبب وہ برطانیہ کیلئے وہ رول ادا نہیں کر سکے گا جو شاید برطانیہ، امریکہ یا مغربی ممالک اس کے حوالے سے سوچ رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم برطانوی حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت کا کشمیر پر قابض ہونا خطے میں تمام گڑ بڑ کی وجہ ہے۔ بھارت کا یہ کہنا کہ وہ قابض ہے اور رہے گا یہ تلخی کی بنیاد ہے جسے مغرب میں دہشت گردی اور کشمیری فریڈم فائٹر کہتے ہیں وہ تمام اس لئے ابھرے اس لئے کہ بھارت کشمیر پر قابض ہے جتنی بھی جنگیں ہوئیں بھارت کے قابض ہونے کی وجہ سے ہوئیں، بھارت کی چین کے ساتھ 1962میں جنگ بھی کشمیر کی وجہ سے ہوئی، گلوان میں مسئلہ ہوا وہ بھی جب 5اگست 2021کو اقدامات کئے تو اس کے ردعمل میں چین نے پوزیشن لی تو جتنے بھی مسئلہ ہیں وہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈو پیسفک فریم ورک میں پاکستان پہلے ہی بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تو پاکستانی حکام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تمام فریمز میں پاکستان کو شامل کیا جائے اور ان کو آمادہ کیا جائے کہ اس کو چین کے خلاف سرگرم کرنے کے بجائے اس کے ساتھ اختلافات میں کمی لائی جائے۔ پاکستان کی خوشحالی کا فارمولا بھی شائد اس میں شامل ہو، اس موقع کمیٹی میں شامل اراکین پارلیمنٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، پریس کی آزادی اور برطانوی شہری جگتار سنگھ جویل کو بھارت میں قید رکھنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے۔