• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گردے دراصل انسانی جسم میں چھلنی کا کام کرتے ہیں، وہ ایسے کہ یہ خون سے فاسد مادے چھانتے ہیں، تاہم کبھی کبھار یہ زنک اور کئی دیگر نمکیات نہیں چھان پاتے، تو گُردوں میں موجود وہ ذرّات یک جا ہو کر پتھریوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ پتھریاں چینی کے ذرّات سے لے کر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر ہوسکتی ہیں۔ اِن کا عموماً اُس وقت تک علم نہیں ہو پاتا، جب تک کہ یہ پیشاب یا خون کی نالیوں میں رکاوٹ کا باعث نہ بنیں کہ پھر یہ شدید درد کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ پتھریاں، گُردے کی تنگ نالی سے ہوتی ہوئی مثانے تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔

پتھری کی علامات:(1)جب پتھری نظامِ بول میں متحرّک ہوتی ہے، تو اُس سے کمر، پیٹ اور جنگاسے میں شدید درد ہوتا ہے۔(2)پیشاب کرتے وقت بہت درد محسوس ہوتا ہے۔(3)بعض اوقات پیشاب میں خون بھی آتا ہے۔(4)پیشاب، خون کی رنگت کا بھی ہو سکتا ہے۔ نیز، کئی کیسز میں پتھریوں کی وجہ سے متلی اور قے بھی ہوتی ہے۔

پتھری کی تشخیص:گردے میں پتھری کی تشخیص عموماً درد شروع ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔درد اِتنا شدید ہوتا ہے کہ مریض کو ہنگامی طبّی امداد کے لیے معالج کے پاس لے جانے کے سوا کوئی چارا نہیں رہتا ،جہاں ایکس رے، سی ٹی اسکین، الٹرا ساؤنڈ یا پیشاب کے لیبارٹری تجزیے کے ذریعے مرض کی تشخیص ہوتی ہے،جب کہ خون کے بعض ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں، جن کی مدد سے خون میں نمکیات کا علم ہوجاتا ہے، جو پتھریاں بننے کی وجہ ہوتے ہیں۔

مریض کی گھریلو دیکھ بھال:اگر پتھریاں چھوٹی ہوں، تو روزانہ اِتنا زیادہ پانی پئیں کہ پیشاب کی رنگت پانی کی سی ہوجائے۔ عموماً جسامت کے تناسب سے اِس پانی کی مقدار دس گلاس یا اس سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔ اِس طرح کرنے سے عام طور پر چھوٹی پتھریاں خود بہ خود نکل جاتی ہیں۔ تاہم، اگر گردے میں درد ہو، تو پھر مریض کو دوا بھی دی جاتی ہے۔

پتھری کا حجم : چھوٹی پتھریاں پانچ ملی میٹر یا اس سے کم حجم کی ہوتی ہیں، جو کہ نوّے فی صد زیادہ پانی پینے سے نکل جاتی ہیں۔اگر پتھریاں دس ملی میٹر تک کی ہوں،تو زیادہ پانی پینے سے اُن کے نکلنے کا امکان پچاس فی صد ہوتا ہے۔

ادویاتی علاج(Medication Treatment):طبِ جدید میں پتھریوں کے علاج کے لیے بیٹا بلاکر یا الفا بلاکر ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے،جو گردوں سے مثانے تک آنے والی نالیوں کو پھیلا دیتی ہیں اور یوں پتھریاں نکل جاتی ہیں۔ ان ادویہ کے استعمال سے سر درد ہونے کے ساتھ، چکر بھی آسکتے ہیں۔

بجلی کی لہروں سے علاج(shock wave therapy):اِس طریقۂ علاج کو lithotripsy کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے پتھری کو ذرّات کی حد تک توڑ دیا جاتا ہے۔ اِس دوران مریض میں لہروں کی رگڑ لگنے سے خون بھی آتا ہے یا عمل مکمل ہونے کے بعد درد ہوتا ہے۔

فائبر آپٹک کے ذریعے پتھری کا معائنہ(Ureteroscopy): سرجن اِس آلے سے پتھری توڑ دیتا ہے، پھر اس کے ذرات پیشاب کے ذریعے باہر نکل جاتے ہیں۔اگر پتھری بڑی ہو، تو آپریشن کر کے نکالی جاتی ہے۔

پتھری کا تجزیہ: سرجن آپریشن کے بعد پتھری تجزیے کے لیے بھیج دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ کس نمک سے بنی ہے۔ یہ اسّی فی صد چونے کی بنی ہوتی ہیں، باقی بیس فی صد دیگر نمکیات سے بنتی ہیں، جن میں یورک ایسڈ یا میگنیشیم+امونیم+فاسفیٹ سے بنے پتھرstruvite یا کاربو ہائیڈریٹ سے بنے ہوتے ہیں۔جب تجزیے کے بعد پتھری کی بناوٹ کا علم ہو جائے، تو نمکیات پر مشتمل غذاؤں کا استعمال ترک یا کم کردینا چاہیے۔

پتھریاں کیسے بنتی ہیں؟

جب ہمارے کھانوں یا مشروبات میں پانی، نمکیات اور دھاتوں کا جسم کی ضرورت کے مطابق تناسب نہ رہے یا نہ ہو، تب پیشاب کے ذریعے ان کا اخراج مکمل طور پر نہیں ہو پاتا۔ پس، نمکیات یا دھاتوں کے جو ذرّات گردے میں رہ جاتے ہیں، اُن سے پتھریاں بنتی ہیں اور وہ گُردوں کے دیگر امراض کا بھی سبب بنتے ہیں۔مَردوں میں 40 سال اور خواتین میں50 سال کی عُمر کے بعد اِس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

علاوہ ازیں، چند بیماریوں میں بھی پتھری بنتی دیکھی گئی ہے، اُن میں بلند فشارِ خون، گٹھیا، نظامِ بول میں انفیکشن، بار بار اور زیادہ پیشاب آنے کا عارضہ اور پیٹ کا حجم بڑھ جانا وغیرہ شامل ہیں۔نیز، پانی اِتنا کم پینا کہ جس سے پیشاب پانی کی رنگت کا نہ آئے۔ گوشت، نمک اور زیادہ آگزالیٹ والی غذائیں، تمام اقسام کی بیری، سرخ ارغوانی انگور، آلوچہ، سبز سبزیاں، خول بند پھل، سویا بین سے بنی اشیاء، بیج، چاکلیٹ، سوڈا واٹر، آلو، شکر قندی، چقندر، حلوہ کدّو اور بھنڈی کے زیادہ استعمال سے بھی گُردوں میں پتھری جنم لے سکتی ہے،لہٰذا گوشت، سبزیاں اور دالیں ادل بدل کے کھائیں۔

دوبارہ پتھریاں بننے سے بچاؤ

جب تشخیص سے علم ہو جائے کہ پتھریاں چونے کی بنی ہوئی تھیں، تو نمک اور گوشت کم کھائیں ۔اِسی طرح جن اشیاء میں آگزالیٹ زیادہ ہوتا ہے،وہ بھی کم ہی کھائیں، مثلاً چاکلیٹ، کافی، چائے، خول بند سبزیاں، پھل، بیری، گہرے سبز پتّوں والی سبزیاں، شکر قندی اورسویابین سے بنا سالن وغیرہ۔نیز،پانی اِتنا زیادہ پئیں کہ پیشاب پانی کی رنگت کا آنے لگے۔ (مضمون نگار ڈاؤ یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی کراچی سے وابستہ رہ چکے ہیں)