بالی وڈ کے کنگ خان، شاہ رُخ خان اورکاجول کی سپر ہٹ فلم ’’دِل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘‘ 25 برس سے زیادہ عرصہ ایک ہی سینما گھر میں نمائش پذیر رہی، یہ ایسا ریکارڈ ہے کہ شاید ہی بالی وڈ کی کوئی فلم ایسی ہو جو 25 برس تک سینما گھر کی زینت بنی ہو۔ اس فلم کے گانے، فن کار اور ڈائریکٹر کو دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت ملی، اس فلم کے ڈائیلاگز،نامور ادیب، خاکہ نگار اور فلم لکھاری جاوید صدیقی نے لکھے اور بھارت کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ فلم فئیراپنے نام کیا۔
جاوید صدیقی نے ان گنت ڈرامے، خاکے اور 90 سے زیادہ فلمیں لکھی ہیں، لیکن آج بھی دُنیا بھر میں ان کی پہچان اور شناخت فلم ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘سے ہے، حالاں کہ انہوں نے شاہ رُخ خان کی کئی سپر ہٹ فلموں کی کہانیاں اور ڈائیلاگز لکھے، ان میں بازیگر، پردیس، ڈپلی کیٹ، چاہت، ڈر، جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ جاوید صدیقی نے اپنا فلمی سفر ’’شطرنج کے کھلاڑی ‘‘سے شروع کیا۔ بعدازاں انہوں نے علی بابا چالیس چور، سوہنی ماہیوال، تال، فضا، چوری چوری چپکے چپکے، بلیک منی، راجا ہندستانی و دیگر فلمیں بھی لکھیں۔ فلم بازیگر کے لیے انہیں بیسٹ اسکرین پلے رائٹر کا
’’فلم فیئر ایوارڈ‘‘ بھی مل چکا ہے۔ گزشتہ دِنوں وہ ممبئی سے کراچی تشریف لائے تو ’’آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی‘‘ نے اُن کی شایان شان ’’خراج تحسین ‘‘ پیش کیا۔ اس موقع پر آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ تقریب میں اُردو دُنیا کی ممتاز شاعرہ زہرا نگاہ، بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر اور فن کار ضیاء محی الدین، فاطمہ حسن، جاوید صدیقی کی بیگم فریدہ ، صاحب زادے سمیر، بھتیجی عنایہ اور صدر آرٹس کونسل سید محمد احمد شاہ نے اظہارخیال کیا۔
اس پُروقار تقریب میں جاوید صدیقی کی سال گرہ کا خصوصی کیک بھی کاٹا گیا۔ صدر احمد شاہ نے صاحبِ تقریب کو خوشبوئوں کا تحفہ پیش کیا۔ اس موقع پر حاضرین نے جاوید صدیقی کا پُرجوش استقبال کیا۔ سب نے سال گرہ کی مبارک بادیں بھی پیش کیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کی شان دار تقریب ’’خراج تحسین‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے صاحبِ اعزاز اور برصغیر کے ممتاز لکھاری جاوید صدیقی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ 1960ء میں جب دِلی پہنچا تو ترقی پسند تحریک اتنی متحرک نہیں تھی، لیکن اس کے ساتھ لوگ بہت بڑی تعداد میں تھے، جو کسی میں امتیاز نہیں کرتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی، تو سلطانہ آپا کے بینک اکائونٹ میں سات سو روپے تھے، جس میں سے چھ روپے مجھے دے دیے۔ سارے کامریڈ نے میری مدد کی۔ اس طرح چندے سے میری شادی ہوگئی، جو ہوا، اچھا ہوا!! فریدہ کے روپ میں مجھے بیوی اچھی ملی۔ میرے بچے سب باصلاحیت ہیں۔ تاہم سمیر میں میری جیسی صلاحتیں موجود ہیں۔‘‘
بالی وڈ کی سپرہٹ فلم ’’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘‘ کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں جاوید صدیقی نے بتایا کہ اس فلم سے میں چڑتا نہیں ہوں، بلکہ مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ یہ فلم میری شناخت بن گئی، جب کہ یہ فلم میری پہچان نہیں ہے۔ یہ مانتا ہوں کہ میرے اور بھی کام ہیں، جس سے مجھے مقبولیت ملی۔
میں اپنی پہچان کچھ اور بنانا چاہتا تھا۔ میں نے فلموں کی کہانیاں لکھنے کا کبھی سوچا نہیں تھا!! نہ ہی میرا ارادہ تھا کہ مجھے فلم کے لکھاری کی حیثیت سے شہرت ملے، لیکن زندگی کے اس موڑ پر آگیا ہُوں، تو پلٹ کر دیکھتاہوں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی شاید ہمارے ارادوں کے بل پر نہیں چلتی اور یہ کسی اور کا ارادہ ہوتا ہے، جو آپ کو چلاتا ہے۔ 17برس کی عمر میں اخبار میں کام کرنے لگا۔ پھر جرنلزم کیا، خود بھی اخبار شائع کیا اور دوسرے بڑے اخبارات میں بھی خدمات انجام دیں۔
اُردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات میں 16 برس تک صحافت کرتا رہا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی اور کام کروں گا۔ وہ تو حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ بھارت میں ایمرجنسی لگ گئی تھی، تو سچی صحافت کرنی مشکل ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ لکھنے کا پروجیکٹ میرے پاس آیا۔ صرف تین منٹ کی گفتگو کے بعد مجھے یہ فلم لکھنے کی پیش کش ہوئی، تو اس وقت میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوگئے تھے۔ زبان سے محبت اور لکھنے کا شوق دادا، پردادا کی لائبریری، جو دیمک سے بچ گئی تھی، سے حاصل کیا، زبان کا استعمال بھی اس سے سیکھا۔ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘کے ڈائیلاگز، شمع زیدی کی مدد سے لکھے۔
یہ حقیقت ہے کہ اُردو زبان لامحسوس موسیقی ہے۔ میں نے زندگی میں لکھنے کے علاوہ کوئی اورکام نہیں کیا۔ بڑی عجیب بات ہوتی ہے کہ ہم لوگ نثر اور نظم کو دُوردُور کر دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، نظم میں آپ کو نثر کے اثرات دکھائی دیں گے۔ نثر ہی ہے جو لفظ کی ترتیب کو بدل کر نظم بن جاتی ہے۔ میں نے جب یہ قلم اٹھایا، تو مجھے یہ احساس ہوا کہ میں کسی اور کے لیے نہیں، بلکہ اپنے لیے ہی لکھتا ہُوں۔ میں نے جو بھی لکھا، میری اپنی کہانی ہے ، پڑھنے والوں کومیرے خاکوں میں میری زندگی دکھائی دے گی۔ میں سمجھتا ہُوں کہ خاکہ نگار کو بے ایمان نہیں ہونا چاہیے۔
درجنوں فلمیں لکھیں، لیکن مجھے ’’دِل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ فرشتوں کے نہ جانے کیا دل میں آئی کہ مجھے اس گھرانے میں پیدا کیا، جہاں محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر ، میرے دادا اور کئی بڑے لوگوں کی صحبت ملی، جن سے میں نے تربیت حاصل کی اور آج آپ کے سامنے موجود ہوں۔ میرے چچا شاکر علی بہت بڑے پینٹر تھے۔‘‘ جاوید صدیقی کی شریک حیات فریدہ جاوید نے اپنی گفتگو میں کہاکہ جاوید،عمدہ لکھاری ہی نہیں، بہت اچھے انسان بھی ہیں، میں نے ان کو پسند کیا اور ہماری شادی ہوئی۔ جس پر میرے بھائی دو سال تک ہم سے ناراض بھی رہے۔‘‘
نامور فن کار ضیاء محی الدین نے اپنے مخصوص انداز میں جاوید صدیقی کے خاکے کا انتخاب پیش کیا۔ اس سے قبل انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میں نے ناپا اکیڈمی میں جاوید صدیقی کے دو مقبول ڈرامے ’’بیگم جان‘‘ اور’’سال گرہ‘‘ پیش کیے۔ ان کی ڈائریکشن بھی دی، ان ڈراموں کو کراچی اور بعد میں لاہور میں خُوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
ان کے خاکوں کی نئی کتاب جب میں نے پڑھی، تو میری آنکھیں روشن ہوگئیں، بہت دِنوں کے بعد اتنی عمدہ کتاب پڑھنے کو ملی۔ ایسی نثر جس میں معصومیت بھی ہے، فن کی گہرائی بھی، ایسی نثر، جس میں شوخی بھی ہے اور بانکپن بھی ہے اور بُجھے ہوئے شعلوں کی کسک بھی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ آج ان سے ملاقات ہوگئی۔ ان کے خاکے، چند ایسے مضامین،ان کی آپ بیتی کے ابواب ہیں۔ یہ خاکے زندگی کے اندھیروں میں کھلنے والے وہ روزن ہیں، جن کی روشنی نہ ملتی تو دم گھٹ جاتا۔‘‘
نامور شاعرہ زہرہ نگاہ نے تقریب میں جاوید صدیقی سے سوالات بھی کیے اور کہا کہ سُنا ہے عمر بڑھ جائے، تو باتوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ میں نے جاوید صدیقی کی کتاب پڑھی تو سوچاکہ کسی نہ کسی دن ان سے ضرور ملاقات ہوگی۔ ضیاء محی الدین نے جس عمدہ انداز میں ان کے خاکوں کو پیش کیا ہے، وہ دل میں اُتر جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ شاعری کا عینک لگا کر نثر کو دیکھتی ہُوں۔ جاوید صدیقی نے فلم ’’دِل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ ایسی لکھی ہے کہ وہ پُرانی ہی نہیں ہوتی۔ میں نے ان کی فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کو تین چار بار دیکھا۔
جاوید صدیقی نے زندگی میں جو دیکھا، اسے اپنی یادوں میں محفوظ کر لیا۔ فلم کے کام میں اور بھی لوگ شریک ہو جاتے ہیں، لیکن انہوں نے ادب کا کام اکیلے، تنہا ہی کیا۔ احمد شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ ہمارے عہد کا ہر بڑا آدمی آرٹس کونسل تشریف لائے۔ آج ہمارے اسٹیج پر برصغیر کے بہت بڑے لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم ان کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ بہت خوشی ہوئی کہ برصغیر کے ممتاز لکھاری جاوید صدیقی آرٹس کونسل تشریف لائے۔