• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر ۔۔۔۔ لیسٹر
بلوچستان حکومت نے گوادر میں ’’حق دو تحریک‘‘ کے پر امن احتجاجی دھرنے پر لاٹھیاں برسائی اورنصب شدہ شامیانے زبر دستی اکھاڑ پھینکے اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، نیز اندھا دھند فائرنگ کر کے دھرنے کو منتشر کر دیا اور لاتعداد مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا جس کے ردِ عمل میں مظاہرین نے کراچی جانے والی ہائی ویز بلاک کردی، اس دھرنے میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی، یہ مظاہرین کئی ہفتوں سے پر امن احتجاج کر رہے تھے، ان کے مطالبات جائز اور برحق تھے جنہیں صوبائی اور مرکزی حکومت دسمبر 2021میں تسلیم بھی کر چکی تھی خود وزیرِ اعلی بلوچستان نے مظاہرین کے روبرو معاہدے پر دستخط کئے تھے اور عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان تمام مطالبات کو جلد عملی جامہ پہنائے گی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہیں ہوا بالآخر حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے اکتوبر 2022 میں پھر تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور نومبر 2022 میں دوبارہ تحریک کا آغاز ہو گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ گوادر کی بندر گاہ سے ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ یہ چین کا دنیا بھر کے ساتھ تجارتی راستہ ہے۔ جس سے دونوں ملک خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے لیکن اس ترقی کے فوائد کے اولین حق دار گوادر کے عوام ہیں جو نہ صرف ان فوائد سے محروم ہیں بلکہ حکومت نے ان کی مشکلات بڑھا دی ہیں جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی دہرم برہم ہوکر رہ گی ہے، گوادر اور پسنی کے نوے فیصد عوام کا زریعہ معاش ماہی گیری ہے جسے ٹرالر مافیا نے تباہ کر دیا ہے، ٹرالر مافیا جدید الیکٹرانک مشینری سے ساری مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں اور غریب عوام کے لیے کچھ نہیں بچتا، ماہی گیروں کو مختصر مدت کیلئے ساحلِ سمندر پر جانے دیا جاتا ہے، اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ خالی ہاتھ واپس لوٹتے ہیں، اس لیے ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے، یہ ٹرالر سندھ سے وہاں جاتے ہیں جس سے نہ صرف مچھلیاں ختم ہو رہی ہیں بلکہ ان کے بچے بھی ختم ہو جاتے ہیں، نیز یہ سمندری ماحولیات کو برباد کر دیتے ہیں، دوسرا مسئلہ گمشدہ افراد کا ہے، مہذب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اپنے ہی شہریوں کو زبردستی اغوا کر لیا جائے، یہ ہر لحاظ سے غلط ہے اوّل تو یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے، دوم یہ کسی مسئلہ کا حل بھی نہیں، اس سے معاشرے میں نفرت بڑھتی ہے، یہ ایک لحاظ سے ملک دشمنی ہے، مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں، اگر حکومت عوام کے مسائل حل کر دے تو عوام حکومت کا ساتھ دیں گے، تیسرا مسئلہ بے روز گاری کا ہے، گوادرکی بندرگاہ میں جہاں روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہو رہے ہیں، وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی لوگوں کو اہمیت دی جائے، اس سے ان کا احساسِ محرومی بھی دور ہو گا اور بے روزگاری بھی کم ہو جائے گی، اسی طرح صحت و علاج معالجے اور تعلیم کے مسائل ہیں، وہاں ہسپتال اور تعلیمی ادارے کھلنے چاہئے، ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے انہیں علاج کے لیے کراچی جانا پڑتا ہے، اسی طرح وہاں چیک پوسٹوں کی بھر مار ہے، ملکی سیکورٹی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن گوادر میں چیک پوسٹوں کی بھر مار ہے، لوگوں کے گھروں کے اوپر بھی چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں، غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کرنا چاہئے تاکہ مقامی لوگوں کی عزتِ نفس مجروع نہ ہو، اسی طرح منشیات کے فروغ سے بھی وہاں کے باشندے کافی نالاں ہیں، ایک طرف بے روزگاری اور دوسری طرف منشیات نے عوام کو پریشان کیا ہوا ہے، اس لعنت کو ختم ہونا چاہئے، ایران سے جو سستی بجلی وہاں کے باشندوں کو ملتی ہے، اسے بھی جاری و ساری رہنا چاہئے، اس طرح کے کئی مطالبات ہیں جو بالکل جائز ہیں، مولانا ہدایت الرحمن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی ساری جدو جہد آئین و قانون کی حدود میں ہے، وہ مشکلات جھیل رہے ہیں لیکن انتہا پسندی اختیار نہیں کرتے، ایسے رہنماوں کی قدر کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں جس کے ازالے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے، حکومت و ریاست کے اربابِ اختیار سے توقع ہے کہ وقت کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے بلوچ بھائیوں کے مسائل حل کرے گی، انہیں دوسرے درجے کا شہری تصور نہ کریں، وہ بھی انسان ہیں، ان کے مطالبات برحق ہیں اگر ان کے حقوق مسلسل پامال ہوتے رہے تو ملک خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے، عدل و انصاف ہی سلامتی کا
راستہ ہوتا ہے، اس سے روگردانی نہ کریں، یہی ملکی بقا کا تقاضا ہے۔
یورپ سے سے مزید