ان دنوں بھارت میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی عدم شرکت پر شائقین ہاکی کے علاوہ قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی، سابق ہاکی اولمپئینز اور انٹر نیشنل کھلاڑی مایوسی کا شکار ہیں، ورلڈ کپ ہاکی ٹور نامنٹ کا آغاز پاکستان کی مرہون منت ہے، جس کا سہرا ائیر مارشل (ر) نور خان کے سر ہے جن کی ذاتی دل چسپی سے اس ایونٹ کا انعقاد ہوا۔
ان کی تجویز کو عالمی ہاکی فیڈریشن نے قبول کرتے ہوئے پاکستان کو اس کی میزبانی دی مگر کچھ وجوہات کی بناء پر ورلڈ کپ کا پہلا میزبان اسپین بنا، اس ایونٹ کی ٹرافی پاکستان نے عطیہ کی، جسے 1970 میں پاکستان میں 4 لاکھ روپے سے زائد کی لاگت سے ڈیزائن اور تیار کیا گیا تھا، پاکستان 70/80 میں ہاکی کا مرکز تھا اور پاکستان کی شراکت بالکل ان دنوں بھارت کی طرح تھی، پاکستان اولمپک 1968 ایشین گیمز 1970 اور ورلڈ کپ 1971 ورلڈ کپ جیت کر گرینڈ سلیم کی تاریخ رقم کر تے ہوئے افتتاحی ٹورنامنٹ کا چیمپئن بنا۔
پاکستان نے چیمپئینز ٹرافی ہاکی ٹور نامنٹ کے انعقاد کا بھی آئیڈیا دیا اور پہلا ایونٹ کا میزبان بھی پاکستان تھا،ورلڈ کپ ہاکی ٹور نامنٹ پاکستان نے 1971,1978,1982 میں جیتا، بھارت میں اگر آسٹریلیا یا ہالینڈ یہ ٹورنامنٹ جیتتے ہیں تو وہ پاکستان کا ریکارڈ توڑ کر دیں گے، ورلڈ کپ کے اسٹیٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس تیز رفتار کھیل کو مقبول بنانے کے لیے جو کہ دنیا کا سب سے تیز آؤٹ ڈور کھیل ہے ان کو فروغ دینے کے لیے ایونٹکم از کم تین ہفتوں کا ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ میڈیا کی کوریج کو بھی دیکھ سکیں۔ کھلاڑیوں کو آسٹروٹرف پر تھکاوٹ سے بچانے کے لئے میچوں میں کچھ وقفہ ہونا چاہئےقت درکار ہے۔
پاکستان ہاکی کے لیے ایک بار پھر اس ٹورنامنٹ میں کوالیفائی نہ کرنا باعث افسوس ہے۔ پاکستان میں اس کھیل میں بہتری کے لئے حکومت کو بھی توجہ دینا ہوگی، اداروں میں ٹیموں کو بحال کرنا ہوگا، نجی اداروں کو بھی آگے آنا ہوگا، جب تک معاشی پوزیشن اچھی نہیں ہوگی ہم اگلے ورلڈ کپ سے بھی باہر ہی ہوں گے، اولمپکس اور ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کے لئے فیڈریشن کے حکام کو بھی پلاننگ کرنا ہوگی، کوچنگ اسٹاف میں تجربے کار لوگوں کو لانا ہوگا، ہماری عالمی درجہ بندی بھی اس وقت حددرجہ افسوس ناک ہے اس پر بھی توجہ دی جائے۔