پاکستان فلم انڈسٹری میں بے شمار ہیروز آئے اور سینما اسکرین پر اپنے فن کے کمالات دکھا کر چلے گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاحال فلم بینوں کے دِلوں پر بہ طور ہیرو راج کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ اداکار شان شاہد کا شمار بھی ایسے ہی باصلاحیت ہیروز میں ہوتا ہے۔ 1990ء سے 2022ء تک انہوں نے تقریباً پانچ سو فلموں میں کام کیا۔ انہیں اداکاری کا فن اپنی والدہ نیلو بیگم اور والد ریاض شاہد سے ورثے میں ملا۔ شان شاہد فلم ’’بلندی‘‘ سے ’’ضرار‘‘ تک فلموں میں بہ طور ہیرو پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہونے کی روایت برقرار رکھی۔
اس دوران انہوں نے کئی سپر ہٹ فلمیں بھی دیں اور کچھ فلموں نے باکس آفس پرکام یاب ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے خود کو بہ طور پر ہدایت کار، مصنف، ٹی وی اینکر، فلم ساز اور ماڈل بھی آزمایا۔ ان کی سپر ہٹ فلموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کی چند قابل ِ ذکر فلموں میں میں بلندی، مجاجن، خدا کے لیے، سوہا جوڑا، جگنی، وار، آپریشن 021، یلغار، ارتھ اور2022 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ضرار ‘‘ شامل ہے۔ شان شاہد کا شمار لالی وڈ کے صفِ اوّل کے فن کاروں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جیو اور شعیب منصور کی سپر ہٹ فلم ’’خدا کے لیے‘‘ اور بلال لاشاری کی کام یاب فلم ’’وار‘‘ میں غیرمعمولی پرفارمینس دی۔ ان کی جوڑی اداکارہ ریما کے ساتھ بے حد پسند کی گئی۔ بعدازاں انہوں نے درجنوں فلموں میں مختلف ہیروئنوں کے ساتھ فلم بینوں کے دل جیتے۔ اداکاری کے شعبے میں عمدہ پرفارمینس دینے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمینس بھی مل چکا ہے۔ وہ کئی اہم فلمی اور غیر فلمی ایوارڈ ز بھی اپنے نام کر چکے ہیں، جن میں فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا اعزاز نگارایوارڈ اورلکس اسٹائل ایوارڈ بھی شامل ہے۔ شان شاہد، فلموں کے علاوہ جیو نیوز پر مارننگ شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے لاہور میں منجھے ہوئے فلم اسٹار شان شاہد سے ملاقات کی، جس میں سنجیدہ اوردل چسپ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے ہمارے سوالات کے جوابات بڑی محبت اور تحمل سے دیے، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
س: نئی مولاجٹ کی غیر معمولی کام یابی کے بارے میں آپ کے جذبات کیا ہیں؟
ج: یہ جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ بلال لاشاری کی ڈائریکشن میں بننے والی نئی مولاجٹ نے 250کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کر لیا ہے۔ بلال لاشاری سے میری بہت اچھی دوستی ہے۔ میں نے ان کی فلم ’’وار‘‘ میں کام کیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کا نام کسی بھی شعبے میں روشن ہوتا ہے، تو میرا دل بے انتہا خوش ہوتا ہے، خاص طور پر فلم اور اسپورٹس کی کام یابی پر زیادہ خوشی ہوتی ہے اور مجھے زیادہ خوشی اس بات کی بھی ہے کہ آج تک میں جو کہتا رہا، وہ سچ ثابت ہوا۔ آخرکار گنڈا سے والی فلم نے ہی دُنیا بھرمیں دُھوم مچائی۔ ایک زمانے میں جب میں پنجابی اورگنڈاسے والی فلموں میں کام کرتا تھا ، تو لوگ مجھ پر شدید تنقید کرتے تھے۔ آج 250کروڑ کا بزنس کرنےکے لیے گنڈاسے والی فلم ہی بنانی پڑی۔ حال، جب ماضی کے ساتھ جڑتا ہے، تو مولاجٹ جیسی شاہ کار فلم بنتی ہے۔
س: آپ ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام نہیں کرتے ، جب کہ ہمارے دوسرے فلم اسٹار مختلف ڈراموں میں نظر آتے ہیں؟
ج: ٹیلی ویژن اچھا میڈیم ہے۔ اس میں کام کرنے والے میرے لیے قابل احترام ہیں۔ میں ہر میڈیم کی قدر کرتا ہوں۔ ٹیلی ویژن پر کام کرنا ٹیسٹ کرکٹ میچ کی طرح ہوتا ہے، جب کہ فلم میں ٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے کھلاڑی جب ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلتے ہیں، تو اس کے مطابق اپنا انداز اپناتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ٹیلی ویژن کا فن کار بہت اچھے ہیں، لیکن جب وہ فلم میں کام کرنے آتے ہیں، تو ان کا انداز ٹیلی ویژن والا ہی ہوتا ہے۔
س: کیا ناظرین کبھی آپ کو کسی ٹیلی ویژن ڈرامے میں دیکھیں گے؟
ج: نیٹ فلکس اور او ٹی ٹی پر زیادہ فریڈم ہے۔ اس کے لیے کام کررہا ہوں،جب کہ ہمارے ٹی وی ڈراموں میں بہت پابندیاں ہیں۔ ساس بہو کے لڑائی جھگڑوں کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں میں جب بھی عمدہ پرفارمینس کا موقع ہوتا ہے، تو درمیان میں اشتہار کا وقفہ آجاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ڈرامے اچھے بن رہے اور کام یاب بھی ہو رہے ہیں، لیکن یہ ایک شاخ والا درخت ثابت ہو رہے ہیں۔
اسے ہمیں مختلف شاخوں کا درخت بنانا ہے۔ جتنی شاخیں ہوں گی، اتنے ہی پھل ہوں گے۔ ہمارے ڈراموں میں موضوعات کی کمی ہے۔ ان میں کامیڈی، سوشل مسائل، سیاسی، ایکشن، تجسس اور سب کچھ ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ٹی وی ڈراموں کی اُڑان اقبال کے شاہین والی نہیں ہے۔
س: آپ کو اداکاری کا فن ورثے میں ملا۔ کیا ہم آپ کے بچوں کو بھی شوبزنس کی دُنیا میں دیکھ سکیں گے؟
ج: اداکاری کا فن میری گُھٹی میں شامل ہے۔ اسی طرح میرے بچوں کو بھی گھر میں شوبزنس کا ماحول ملا ہے۔ میری چار بیٹیاں ہیں، تین بیٹیاں ایک ساتھ پیدا ہوئی تھیں۔ چاروں کو شوبزنس ہی کام کرنے کا شوق ہے، اگر وہ اس شعبے میں کام کرنا چاہیں، تو میں ان کو منع نہیں کروں گا۔ ابھی وہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ میری طرح ان کو گھرمیں پڑھا لکھا ماحول، کتابوں پر گفتگو، شاعری پر باتیں اور ادب کے سلسلے، یہ سب کچھ ملا ہے۔ کون کیا بنتا ہے، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم نے بچوں کی تربیت پربھرپور توجہ دی ہے ۔
س: آپ نے جیو نیوز سے مارننگ شو بھی کیا تھا، وہ تجربہ کیسا ثابت ہوا؟
ج: بہت شان دار تجربہ تھا، مجھے لگا کہ میں نے جو فلموں میں کام کیا ہے۔ اس سے تو فلم بین اور مداح واقف ہیں، میری زندگی کیسی ہے ،میں کیا سوچتا ہوں، پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتا ہوں، یہ کسے معلوم نہیں تھا!! میری خواہش تھی کہ میں ٹی وی پر ایک ایسا عوامی شوکروں، جس میں عوام مجھ سے اور میں ان سے دِل کی باتیں کروں۔
وہ ایک فن کار کی پیاس تھی، جب میں جیو کے مارننگ شو میں بولنے لگا، تو ناظرین اور مداحوں کو محسوس ہوا کہ یہ فلمی اسکرپٹ نہیں ہے۔ شان کے دِل کی آواز ہے، جو پاکستان کا درد رکھتا ہے۔ میں اپنی سوچ عوام تک منتقل کرنا چاہتا تھا۔ میں اسکرین پر لکھاری کے جملے ادا کرتا تھا اور مارننگ شو میں دِل سے بولتا تھا۔
س: ’’خدا کے لیے‘‘کی شہرت سرحد پار بھی گئی،آپ کی پرفارمینس کو بالی وڈ والوں نے سراہا، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: اس میں کچھ شک نہیں کہ شعیب منصور صفِ اوّل کے ڈائریکٹر ہیں، وہ کمال لکھتے ہیں ، اسی وجہ سے فلم ’’خدا کے لیے‘‘کو دُنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ ایسی فلمیں آج بھی ضرور بننی چاہئیں۔ بالی وڈ میں بھی اس فلم کے چرچے بہت تھے۔ مجھے کئی بالی وڈ ڈائریکٹرز نے فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کی، مگر میں نے صاف انکار کردیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے ابھی اپنے پاکستانیوں کے لیے کام کرنا ہے۔
ان کو انٹرٹین کرنا ہے، میں امریکا سے واپس پاکستان آیا، تو سڑکیں بدل چکی تھیں، لیکن لوگ نہیں بدلے تھے۔ بات کرنے کی آزادی مجھے امریکی جمہوریت میں محسوس ہوئی۔ میں نےاپنی حکومتوں کو سمجھایا کہ زندگی میں انٹرٹینمنٹ کی کتنی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں کسی بھی حکومتوں نے انٹرٹینمنٹ پر توجہ ہی نہیں دی۔ 75برسوں سے پاکستانیوں کو صرف سیاسی فلم دکھائی گئی۔
س: سید نور کی فلموں میں پہلے جیسا رنگ کیوں نہیں رہا؟
ج: مجھے لگتا ہے کہ سید نور کو کوئی اور بھی کام کرنا چاہیے۔ نئی نسل کے پروڈیوسر کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ماضی میں انہوں نے بہت اچھی اچھی فلمیں بنائیں۔ دیکھیں انضمام الحق بھی کبھی کبھی زیرو پر آئوٹ ہو جاتے تھے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اچھے کھلاڑی نہیں۔
سید نور کو بہ طور لکھاری بھی کام کرنا چاہیے۔ ان کو بار بار چانس ملنا ضروری ہے، ایک دو فلمیں فلاپ ہو جائیں، تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کو کام نہیں آتا۔ ان کو ڈراموں کی ڈائریکشن بھی دینی چاہیے۔
س: کراچی والوں سے دُور رہنے کی وجہ کیا ہے، جب کہ وہ سب آپ سے بے حد پیار کرتے ہیں؟
ج: میرے خلاف اس طرح کی باتیں پھیلائی جاتی ہیں، کراچی میرا اپنا شہر ہے۔ مجھے ابھی کراچی آنا تھا، لیکن اچانک میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ کراچی کے صحافیوں سے میرا مضبوط رشتہ ہے، میرا ان پر ایک مان ہے، میں خود کو کراچی کی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کا فرد سمجھتا ہوں۔ میں کبھی کبھی شرارتی بچہ بن جاتا ہوں۔ میرے والد شعبہ صحافت سے وابستہ رہے۔ آج کل تو جتنے فن کار ہیں۔ اتنے ہی جرنلسٹ بھی ہیں، کسی پڑھے لکھے جرنلسٹ سے ملتا ہوں تو دِلی خوشی ہوتی ہے۔‘‘
س: ’’بلندی‘‘ سے ’’ضرار‘‘ تک فلمی سفر کیسا رہا؟
ج: بہت طویل سلسلہ اور سفررہا، کبھی اچھا لگا اورکبھی رونا پڑا۔ اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ اپنی ذات کچھ بھی نہیں، ابھی بہت سفر باقی ہے۔ بھارت نہ جانے کے فیصلے پر آج بھی خوش ہوتا ہُوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں میوزک، آرٹ اور فلم کے کاموں میں بے شمار رکاوٹیں ہیں۔ بالی وڈ کی کئی فلمیں منع کیں، سخت فیصلے پر فیملی نے بہت ساتھ دیا۔
چاہتا تو ٹیلی ویژن پر گیم شو بھی کر سکتا تھا، لیکن یہ جانتا ہوں کہ فلم کے اداکار کو شائقین فلم پیسہ خرچ کرکے وقت نکال کر دیکھنے آتے ہیں۔ لوگوں کا پیار میرے دل میں ہے۔ میرے خیال میں فلم کے اداکار کو ٹی وی پر گیم شو نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی نئی فلم ’’ضرار‘‘ میں ایسی جنگ کی ترجمانی کی ہے، جو نظر نہیں آتی۔ بھارت میں بھی اس طرح کی فلمیں بنتی رہی ہیں، جیسے سلمان خان کی ’’ایک تھا ٹائیگر‘‘وغیرہ۔‘‘
س: فلم میں کس ہیروئن کے ساتھ کام کرنا زیادہ اچھا لگا؟
ج: ساری فلمی ہیروئن عمدہ پرفارم کرتی ہیں، ان کے ساتھ شوٹنگ کے موقع پر جو بھی وقت گزرتا ہے، وہ میرے لیے قیمتی ہوتا ہے، صائمہ بہت اچھی پرفارمر ہیں۔ نئی ہیروئنوں کے ساتھ کام نہیں کیا، وہ سب اپنے اپنے کیمپ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ماہرہ خان اور مہوش حیات اچھا کام کررہی ہیں، اگر مجاجن کا دوسرا حصہ بنا تو ان دونوں کے ساتھ کام کرنا چاہوں گا۔‘‘
س: ملک کا نیا وزیراعظم کون ہوگا؟
ج: میرے لیے سب سے اہم پاکستان ہے، جو بھی پاکستان کے لیے اچھا ہو اور صحیح فیصلے کرتا ہو، وہ وزیراعظم بنے۔ میں اس کے ساتھ ہُوں۔ عمران خان نے ہمیشہ دماغ کے بجائے دِل سے بات کی۔ اس لیے کچھ صحیح اور کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دِل سے نکلنے والی بات زیادہ اثر رکھتی ہے، سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے کوئی بھی ہوں، لیکن پاکستان کا جھنڈا ایک ہونا چاہیے، میں اپنے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہُوں۔‘‘
س: سینئر اداکار ندیم آپ سے بہت پیار کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
ج: میری پہلی فلم ’’بلندی‘‘ میں ندیم صاحب نے میری سرپرستی کی تھی اور وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اُن کی شخصیت رومانس سے بھرپور ہے، ایسے فن کار اب کہاں پیدا ہوتے ہیں، ہمیں اپنے فن کاروں کی قدر کرنی ہوگی۔‘‘
س: کراچی اور لاہور کی فلم انڈسٹری کو الگ الگ خانوں میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے۔؟
ج: صوبوں کی خود مختاری کے بعد فلم انڈسٹری بھی الگ الگ خانوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس سے پاکستان انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، سب کو پاکستان کے لیے فلمی بنانا چاہیے۔