• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حافظ عبدالاعلیٰ درانی ۔۔۔ بریڈفورڈ
تاریخ انسانی میں گمراہی کے بہت سے افکار اور ان کے مختلف ادوار جنم لیتے رہے ہیں، جنم لے رہے ہیں اورگمراہی کے راستے نکلتے رہیں گے ۔ گمراہی کا سب سے ہولناک راستہ شرک ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی قدر و عظمت نہ جاننے کی وجہ سےپیدا ہوتا ہے اور دوسرا ہے الحاد Atheism ، جسے بے دینی اور اللہ مالک الملک کے وجود سے انکار کہا جاتاہے ۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی نے خوب کہا ہے کہ انسانیت کی اصل بیماری تو شرک ہے رہا الحاد تو یہ وقتاور جوانی کی ایک لہر ہوتی ہے اگر ضمیر زندہ تو یہ نظریہ بہت جلد اپنی موت مرجاتا ہے ۔ ولی کامل حضرت حافظ محمد یحیٰ عزیز محمدی نے سنایا تھا کہ روس میں 1928سے 1941تک جب الحاد کی خوفناک لہراٹھی اور جوزف سٹالن نے مذہب مخالف مہم میں بنیادی کردار ادا کیا اس نے ایک کتاب لکھی جس میں ڈھائی سو سے زائد دلیل دیئے کہ کائنات خود بخود بن گئی تھی، اس کی یہ کتاب دنیا بھر کے مذہب پسندوںکے لیے کھلا چیلنج تھا ۔ جوزف سٹالن سے پوچھا گیا کہ تمہیں اپنے خیالات میں کبھی ذہنی شکست محسوس ہوئی، اس نے کہا صرف ایک بار اور یہ کسی مذہب پسند کے دلائل سے نہیں بلکہ روس کے ایک دور دراز دیہات سے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر خاتون کا ایک خط تھا جس میں اس نے لکھا کہ تمہاری کتاب لاجواب اور دلائل ناقابل رد ہیں مگر ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں مل رہا اور وہ میرے ضمیر کاسوال ہے ۔ میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوں دنیا میں اکیلی ہوں صحت بھی خراب رہتی ہے اس کے باوجود مجھےاپنے رب سے بہتری کی امید رہتی تھی لیکن تمہاری کتاب پڑھ کر امید کی یہ مبہم سی روشنی بھی مجھ سےچھن کر رہ گئی ہے ۔ مسٹر جوزف اب مجھے بتاؤ میں زندہ کیسے اور کیوں رہوں اس کا جواب مجھے ضروردینا، سٹالن یہ خط پڑھ کر پہلی دفعہ اندر سے ہوکر رہ گیا وہ کسی خارجی دلیل کو توڑنے پر قدرت رکھتاتھا لیکن ایک بیوہ خاتون کے سوال نے اسے اپنی سوچ کے بارے میں شک پیدا کردیا تھا۔ پاکستان میں سوشلزم اور سرخ انقلاب کا نعرہ افغان جہاد کے ہاتھوں روس کی شکست و ریخت کی وجہ سے دریا برد ہوگیا ۔ الحاد کے اس دور عروج میں مختلف لوگوں سے اس موضوع پر بات ہوا کرتی تھی، ایک ایسے مکالمے پر یہ تحریر سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے،آپ بھی پڑھیں ۔کوئی صاحب لکھتے ہیں ۔کہ میرے استاد نے مجھے ایران سے آئی ایک سٹوڈنٹ سے بات کرنے کے لیے کہا جو علی الاعلان اسلام چھوڑ چکی تھی میں نے اسے ڈاکٹر صاحب کا حوالہ دے کر ملنے کا وقت مانگا۔ ملاقات ہوئی اور جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ بات اسلام سے متعلق ہے تو وہ کہنے لگی میں اٹھائیس سال ایران میں اسلام دیکھ کر ہی یہاں آئی ہوں اگر اسی اسلام کی بات کرنے آئے ہو تو اپنے اسلام سمیت یہاں سے چلےجاؤ، میں نے کہا نہیں میں تو اس اسلام کی بات کرنے آیا ہوں جو قرآن بتاتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں جوکچھ موجود ہے میں اسے اسلام کر چربہ سمجھتا ہوں، وہ یہ سن کر کچھ نرم پڑی لیکن کہنے لگی میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ میں کائنات میں اور کائنات خود ایک حادثے کے باعث موجود ہیں، میں نے کہا چلیے ہم یہ مان لیں گے لیکن کیوں نہ کائنات اور ہمارے نفس میں موجود ان نشانیوں کی بات کرلیںجن پر قرآن غور کرنے کو کہتا ہے، پھر اللہ نہ ملا تو تم اکیلی کیوں اسلام سے نکلو اکٹھے ہی چلیں گے، وہ مان گئی، میں نے اسے کہا تم نے کبھی سوچا قرآن میں اللہ یہ کیوں کہتا ہے کہ تم میری ایک بھی نعمت کا شمار نہیںکر سکتے، وہ بولی ایک نعمت کا شمار کتنی مضحکہ خیز بات ہے، ایک تو ایک ہی ہے ایک کا شمار کون کرتا ہے، میںنہیں جانتی تھی قرآن میں اتنی مزاحیہ باتیں بھی ہیں، میں بولا چلو ایک نعمت کا شمار کرتے ہیں، ہم تین دن سے ایک آدھ گھنٹے کے لیے ایک نعمت کا شمار کر رہے ہیں، میں نے اس ملحد ایرانی لڑکی سے کہا، چلیے میں تھوڑی دیر کے لیے تمہاری بات مان لیتا ہوں کہ کائنات کےاس خاص حصے یعنی زمین پر تمہاری موجودگی ایک حادثہ ہے، حادثے کی دین ہی سہی، تم اس زندگی کوایک نعمت تو مانتی ہو نا، وہ کچھ کنفیوژ ہو گئی اور بولی نعمت کہوں گی تو تم کہو گے یہ نعمت دینے والا بھی کوئی ہوگا، کیا تم یہی گھسی پٹی دلیل لے کر آئے ہو، میں نے کہا تم کن کلی وژن پر چھلانگ کیوں لگاتی ہوتم، بھول گئیں کہ ہم تمہاری بات مان کر آگے بڑھ رہے ہیںکہ کائنات اور زندگی ایک حادثہ ہے، میرا سوال تو بہت سادہ ہے کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ اس حادثے کےباعث تمہیں زندگی ملی، وہ بولی ہاں یہ اتفاق حسین ہے، میں نے پھر پوچھا گویا زندگی کو تم بہرحال نعمت سمجھتی ہو، وہ کہنےلگی ہاں زندگی ایک نعمت تو ضرور ہے، میں اس کے اس اقرار سے خوش ہوا اور کہا چلیے اب اس نعمت کو شمار کرتے ہیں، وہ مسکرا کر کہنے لگی یعنی اب تم قرآن کی اس بات کی طرف آرہے ہو کہ تم اللہ کی ایک نعمت کو بھی نہیں گن سکتے، میں نے کہا کیا تمہیں خوشی نہیں ہوگی اگر تم اسے گن کر قرآن کا دعوٰی جھوٹا ثابت کردو اور تمہیں میری شکل میں ایک ایسا دوست مل جائے جو اسلام چھوڑ کر تمہارا ہم نوا ہوجائے، اس نے مسکراتے ہوئے کہا چلو پھر گنتے ہیں اس نعمت کو، میں بولا زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا میں برقرار رہنے کے لیے کئی لوازمات کی ضرورت ہے (جاری ہے)
یورپ سے سے مزید