اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی پورٹ) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کی شدید مخالفت اور تنقید کے باوجود ضد کے انداز میں من مانی کرتے ہوئے سب سے بڑا پارلیمانی فورم اپنے مخالفین کی دسترس میں دے دیا، ان کے اس فیصلے سے ان کے مخالف ارکان اسمبلی نے پی ڈی ایم کی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنی مرضی کی قانون سازی کی اور دیگر فیصلوں سے اپنے ارکان اور عوام کے سامنے بھی سرخرو ہوئے۔
عمران خان کا یہ فیصلہ کتنا درست تھا اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ان کے قومی اسمبلی میں واپس جانے کی ’’بے تابانہ خواہش‘‘ سے لگایا جاسکتا تھا جس میں تمام کوشش کے باوجود انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی اور آج بھی ان کے بیشتر ارکان اسمبلی اپنے قائد کے اس فیصلے پر اپنی خاموش ناراضی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی قیادت نے اپنے اس پچھتاوے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور پنجاب اسمبلی میں بھی اپنی ماضی کی غلطی کو دہرایا۔
ملک میں عام انتخابات قبل ازوقت کرانے کیلئے عمران خان نے حکومت سے تاریخ لینے کا جو اعلان کر رکھا ہے اسے تسلیم کرانے کیلئے انہوں نے تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے اپنے بنائے ہوئے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی پر سیاسی اور اخلاقی دباؤ ڈالنے کے سوا بھی کئے حربے استعمال کئے جس کے نتیجے میں چوہدری پرویز الٰہی 186 ووٹوں کے ساتھ ایوان کا اعتماد حاصل کرنے کے باوجود عمران خان کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اور بھاری دل کے ساتھ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر دستخط کر دیئے۔
اپنی بات منوانے کیلئے پی ٹی آئی کے وفادار سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے فعال رہنے والے بلاگرز، ٹوئیٹرز اور فیس بک پر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف ایک منظم مہم چلانے میں شب و روز مصروف رہے اور مختلف حوالوں سے فراہم کردہ یہ بیانیہ پیش کرتے رہے کہ چوہدری برادران کسی صورت پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے اور عین وقت پر عمران خان کو دھوکہ دیں گے۔
دوسری طرف چوہدری پرویز الٰہی اپنی دور اندیشی اور سیاسی بصارت وبصیرت کی بنیاد پر مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے اور عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل کردی گئی تو بالآخراس کے بعد پیدا ہونے والی تمام صورتحال اور پیش آنے والے واقعات پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے خلاف جائیں گے جس کی انتہا یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد میں بنی گالہ کے بعد زمان پارک لاہور میں بھی ان کی آزادی خطرے میں پڑسکتی ہے لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے تمام تحفظات اور خدشات کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان نے انہیں اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کردیا اور اب بعض حلقے جلد یا بدیر عمران کی نااہلی اور گرفتاری کو یقینی قرار دے رہے ہیں اور زمان پارک کے باہر چند درجن افراد کے علاوہ پورے ملک میں کہیں بھی اس سطح کا احتجاج نہیں ہو رہاجس سے حکومت کو کسی بھی سطح پر کوئی تشویش ہو۔
یہی صورتحال ان حلقوں کے اندازوں اور قیاس آرائیوں کو درست ثابت کرتے ہیں اور امر واقعہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیلئے آنے والے حالات و واقعات سے خود پی ٹی آئی میں پرویز الٰہی کے موقف کو حمایت حاصل ہو رہی ہے اور پی ٹی آئی کے جن ارکان نے اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے عمران خان کی حمایت اور پرویز الٰہی کے موقف کی مخالفت کی تھی انہیں ندامت اور پچھتاوے کا سامنا ہے اور خود پی ٹی آئی کے اندر یہ سوچ خاصے یقین کے ساتھ موجود ہے کہ اب اگر عمران خان کی مجوزہ گرفتاری کے ردعمل کے حوالے سے عوام کو احتجاج کی کوئی کال دی جاتی ہے یا جلسہ عام کیا جاتا ہے تو انتہائی مایوس کن نتائج سامنے آئیں گے۔
پی ٹی آئی سے سیاسی وابستگی رکھنے والے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا لب ولہجہ بھی اب تبدیل محسوس ہو رہا ہے اور وہ اس بات پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں بوقت ضرورت اگر انہیں اپنے منصب کے حوالے سے کوئی بڑا یا فیصلہ کن کردار ادا کرنا پڑا تو وہ سیاسی نہیں بلکہ قومی مفاد میں آئینی ہوگا۔