• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی عمران

حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کو کاہل اور کام چورکہا جاتا ہے، اپنے بڑوں کے مقابلے میں کم حوصلہ مند ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو تضحیک آمیز انداز میں کہتے ہیں ’یہ آج کل کے بچے بھی ناں کچھ کام نہیں کر سکتے۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میں نوجوانوں کوملازمت کے حصول میں بہت مشکلات کا سامنا ہے، وہ جو بننے کی خواہش رکھتے ہیں، اس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ 

یہ نوجوان ناکامی کے بعد کبھی تعلیمی نظام پر الزام لگاتے ہیں، جس کو کبھی منصفانہ کبھی غیر منصفانہ سمجھا جاتا ہے؟ یا اس نظام پر الزام لگاتے ہیں جس میں میرٹ کو نظر انداز کرکے سیاسی بھرتیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن یہ معمول کی بات ہے، اس صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، واقعتا سوال تو اُٹھتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

وقت شاید سب سے قیمتی انعام ہے جو نوجوانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن وہ تو ان نام نہاد چیلنجوں کے بارے میں بات کرنے میں وقت گزار دیتے ہیں ،جن کا سامنا کر رہے ہیں، جن پر عام طور پر براہ راست قابو نہیں رکھ سکتے، ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ ان چیزوں پر غورو فکر کریں جس میں وہ کچھ کرسکتے اور آگے بڑھ سکتے ہوں۔

یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے ہاتھ میں جو تعلیمی ڈگری ہے وہ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ یقینی طور پر قیمتی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ڈگری ہی ملازمت یا کسی بھی طرح کی کیریئر میں آگے بڑھنے کی ضمانت ہوتی تو بے روزگاری اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ پھر یہ سوچیں کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟

آج کل کمپنیاں اور تنظیمیں بہترین خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک طویل مدتی سرمایہ کاری کررہی ہیں ، اس لیے ڈگریاں اپنی جگہ لیکن نوجوانوں کو اضافی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت ہے اور ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی جو ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ شناخت کو اجاگر کریں۔ اس لیے نوجوان اپنی ذہن سازی کریں، خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں، ایسا نہ سوچیں کہ یونیورسٹی میں چار سال گزارنے کے بعد آسانی سے نوکری مل جائے گی۔ آپ کو ان سب سے باہر نکل کر سوچنے کی ضرورت ہے، کچھ طلبہ جو اپنے تعلیمی و نفسیاتی مسائل کو حل نہیں کر پاتے وہ اکثر گھنٹوں خالی الذ ہن بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے نوجوان یاد رکھیں کہ، حرکت کا ئنات کا تقاضہ ہے۔ 

کائنات میں کچھ بھی ساکن نہیں۔ مسئلہ چاہے کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اُس پرہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنےسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہر کوئی اندھیرے کی شکایت کرتا ہے تو کوئی اپنی بساط و استطاعت کی او رکوئی اپنی کوتاہ دامنی کی شکایت کہ، وہ بھلا کیا کرسکتا ہے؟ دوستوں، یہ ہر ایک کے بس میں ہے کہ وہ اپنی بساط بھر اپنے حصّے کی ایک شمع روشن کرے۔ انٹرن شپ کریں، پیشہ ور لوگوں سے ملاقاتیں کریں، ان سے سیکھنے کی کوششیں کریں، مشورہ لیں، کچھ اضافی مہارتیں سیکھیں۔ 

ایسی غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول ہوں جو آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے۔ اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تواس کے لئے کوششیں کرنی ہوں گی۔ ٹیکنالوجیز کو سمجھیں جو عام طور پر آپ کی زندگی اور فیلڈ میں کام آئے گی۔ آپ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ آپ کو ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہترین افراد میں سے ایک بننا ہے۔ نظام کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود کو تبدیل کرنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ ہمارے اختیار میں رہتی ہے،تو پھران ہی باتوں سے کیوں نہ شروع کریں جو آپ کے اختیار میں ہیں۔ اگر آپ خود کو تبدیل کرلیتے ہیں ،تو بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ہمت اور طاقت بھی آپ میں پیدا ہو جائےگی۔