• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ستمبر 2001 سے مساجد، عبادتگاہوں پر درجنوں حملے

لاہور (صابر شاہ) پاکستان میں ستمبر 2001 سے مساجد، عبادت گاہوں پر درجنوں حملے، دہشت گردانہ حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، معروف علماء بھی نشانہ بنے۔ پاکستان بھر میں مساجد اورعبادت گاہوں پر درجنوں دہشت گردانہ حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 سے اگرچہ یہ ایک بہاولپور چرچ تھا جو پہلی بار تخریبی سرگرمی کا نشانہ بنا تھا جس کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 26 فروری 2002 کو راولپنڈی کی شاہ نجف مسجد میں نقاب پوش بندوق برداروں کے ایک گروپ نے کم از کم 11 شیعہ نمازیوں کو قتل کر دیا۔

 4 جولائی 2003 کو کوئٹہ میں شیعہ مسجد پر حملے میں کم از کم 47 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے تھے۔28 فروری 2004 کو راولپنڈی کی امام بارگاہ پر حملے میں ایک خودکش حملہ آور ہلاک اور تین نمازی زخمی ہوئے۔ 7 مئی 2004 کو ایک خودکش بمبار نے کراچی میں ایک اور پرہجوم شیعہ مسجد پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 15 نمازی ہلاک ہوئے۔

 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس حملے کے بعد ہونے والے فسادات میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ 31 مئی 2004 کو کراچی کی امام بارگاہ علی رضا مسجد میں نماز عصر کے دوران خودکش حملہ آور کے دھماکے سے 16 نمازی شہید اور 35 زخمی ہوگئے۔

مسجد پر حملے اور مذہبی عالم مفتی شامزئی کے قتل پر فسادات میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ اسی سال 8 اکتوبر کو سیالکوٹ کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے میں 25 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

 10 اکتوبر 2004 کو لاہور میں ایک دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

 27 جنوری 2007 کو پشاور کی ایک مسجد میں خودکش بم دھماکے میں پشاور سٹی پولیس کے سربراہ ملک سعد سمیت کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ 19 جولائی 2007 کو، جب تین الگ الگ بم حملوں میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، ان میں سے ایک واقعہ کوہاٹ کی ایک مسجد میں پیش آیا جسے فوجی اہلکار استعمال کرتے تھے، جس میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے۔

 21دسمبر 2007 کو عیدالاضحیٰ کے موقع پر چارسدہ شہر میں ایک خودکش حملہ آور نے سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ کو دوبارہ نشانہ بنایا۔ چارسدہ کی جامع مسجد شیرپاؤ میں بم دھماکے میں 57 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔

 17 جنوری 2008 کو پشاور میں مرزا قاسم بیگ امام بارگاہ میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 16

 جون 2008 کو ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک مسجد کے اندر ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم چار افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 10 ستمبر 2008 کو لوئر دیر کی ایک مسجد میں دستی بم اور بندوق کے حملے میں 25 سے زائد نمازی شہید اور 50 زخمی ہوئے۔ اسی سال 20 نومبر کو باجوڑ ایجنسی کی ایک مسجد میں خودکش بمبار نے کم از کم نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

 5 فروری 2009 کو ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے ایک مشتبہ خودکش بم دھماکے میں 32 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ 5 مارچ 2009 کو ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک اور مسجد پر نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے دستی بم پھینکنے سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

 27 مارچ 2009 کو جمرود میں پشاور طورخم ہائی وے پر ایک مسجد پر جمعہ کے اجتماع کے دوران بظاہر خودکش حملے میں کم از کم 76 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ تاہم انٹیلی جنس ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 86 بتائی تھی۔ 5 اپریل 2009 کو چکوال میں ایک امام بارگاہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں کم از کم 22 افراد جاں بحق ہوئے۔

 5 جون 2009 کو اپر دیر کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 12 جون 2009 کو لاہور میں معروف سنی بریلوی عالم مفتی سرفراز نعیمی کو قتل کر دیا گیا۔

شہر کے علاقے گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ کے مدرسے میں خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کے کچھ دیر بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اسی روز نوشہرہ کے علاقے چھاؤنی میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری وین مسجد سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں پانچ نمازی شہید اور 105 دیگر زخمی ہو گئے۔

اسی سال 4 دسمبر کو راولپنڈی کنٹونمنٹ کی پریڈ لین عسکری مسجد میں دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 40 افراد جاں بحق اور 86 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ 18 دسمبر 2009 کو لوئر دیر میں ایک مسجد کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق ہوئے۔ 28 مئی 2010 کو لاہور میں قادیانیوں کی دو عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 100 افراد ہلاک ہوئے۔

 یکم جولائی 2010 کو لاہور میں داتا دربار کمپلیکس اور ملحقہ مسجد پر دو خودکش حملہ آوروں کے حملے میں کم از کم 42 افراد جاں بحق اور 180 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

 7 اکتوبر 2010 کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے دروازے پر ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں میں تقریباً 9 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

 5 نومبر 2010 کو درہ آدم خیل کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش بم دھماکے میں 72 سے زائد افراد جاں بحق اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔ 19 اگست 2010 کو جمرود کے قصبے کی ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں چند افراد ہلاک ہوئے۔

اسی سال 31 اگست کو کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک مسجد میں عید کے روز ہونے والے دھماکے میں 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 7 جون 2012 کو کوئٹہ میں ایک مدرسہ و مسجد کے باہر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 5 بچوں سمیت کم از کم 15 افراد جاں بحق ہوئے۔

اسی سال 21 جون کو کوئٹہ کی ایک مسجد کے اندر ایک اور بم دھماکہ ہوا تھا جس میں مزید دو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 9 مارچ 2013 کو پشاور کی ایک مسجد میں دھماکے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 17 دسمبر 2013 کو راولپنڈی کے علاقے گریسی لائنز میں واقع امام بارگاہ کے باہر خودکش دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

 9 جنوری 2015 کو راولپنڈی کی ایک مسجد کے ڈرین پائپ میں نصب ٹائم بم پھٹنے سے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 30 جنوری 2015 کو شکارپور میں شیعہ مسجد میں بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 53 افراد جاں بحق ہوئے۔ 13 فروری 2015 کو پشاور کی ایک مسجد میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے۔

18 فروری 2015 کو کری روڈ، راولپنڈی میں واقع قصر سکینہ امام بارگاہ میں دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ اور 4 مارچ 2022 کو پشاور میں ایک شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 65 افراد جاں بحق ہوئے۔

اہم خبریں سے مزید