سدا بہار اداکار ندیم نے اپنی زندگی کی اکیاسی بہاریں دیکھ لیں اور وہ اب بھی کسی نئی فلم میں اداکاری کا جوہر دکھانے کے لیے ایسے ہی فٹ ہیں، جیسے کوئی نیا اداکار، ندیم فلمی دُنیا میں قدرت کی عطا کا ایک معجزہ ہیں۔ وہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔ قدرت نے انہیں اداکار بنا دیا۔ وہ موسیقی کی دُنیا میں نام کمانے کے لیے اپنے شہرکراچی میں سرتوڑ کوششیں کررہے تھے۔ قدرت انہیں ڈھاکا لے گئی اور وہاں اتفاق سے انہیں نام ور ہدایت کار احتشام نے فلم ’’چکوری‘‘ میں ہیرو کاسٹ کرلیا۔
فلم ریلیز ہوئی، تو سپر ہٹ گئی اور ندیم کا نام پہلی ہی فلم سے بڑے اداکاروں میں ہونے لگا۔ اُن کی دوسری فلم ’’چھوٹے صاحب‘‘ بھی کام یاب ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سائن کرنے کے لیے نئی نئی فلموں کے ان کے سامنے انبار لگ گئے۔ ان کام یابیوں سے ندیم، بد دماغ نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنے مُحسن ہدایت کار احتشام کی بیٹی فرزانہ کو اپنی شریک حیات بنایا اور اس عہد وفا کو پُوری طرح نبھایا۔ فلمی دُنیا جہاں اسکینڈل بننا اور افیئر چلانا معمول کی بات ہے، ندیم نے اس فلمی دنیا میں نہایت احتیاط اور صبروضبط سے اپنے کیریئر کے دِن گزارے اور اپنی پاک دامنی پہ کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ وہ جب فلمی دُنیا میں آئے، تو سلور اسکرین پر اداکار محمد علی اور وحید مراد کا راج تھا۔
دونوں فن کاروں کی اداکاری کا انداز ایک دوسرے سے بہت جُدا تھا۔ وحید مراد چاکلیٹی ہیرو تھے، مکالموں کی ادائیگی کا انداز دھیما پن لیے تھا، تو محمد علی ایک گرانڈیل اداکار تسلیم کیے جاتے تھے، جن کے مکالموں کی ادائیگی میں بلند آہنگی پائی جاتی تھی۔ وہ وحید مراد کے مقابلے میں زیادہ ورسٹائل اداکار تھے۔ اگر چے ’’باغی سردار‘‘ میں وہ ماردھاڑ سے بھرپور اداکاری کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ فلم ’’خاموش رہو‘‘ میں انہوں نے چہرے کے تاثرات سے اپنے اندرونی کرب کے اظہار کی کام یاب اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے تھے۔
وحید مراد ایک مقبول رومانی اداکار تھے، جن پہ کالج کے لڑکے ،لڑکیاں جان دیتے تھے، لیکن اداکار محمد علی ہر طبقے اور ہر عمر کے فلم بینوں میں مقبول تھے۔ اداکار ندیم نے ان دونوں اداکاروں کے درمیان اپنی جگہ کیسے بنائی؟ یہ معاملہ خاصا تجزیہ طلب ہے۔ فلم ’’چکوری‘‘ میں ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی شخصیت اور اداکاری پر دلیپ کمار کی گہری چھاپ تھی۔ سلور اسکرین پر جب وہ نمودار ہوئے، تو فلم بینوں کو جو دلیپ کمار کو بھلا نہ پائے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ انہیں ان کا کھویا ہوا دلیپ کمار مل گیا۔ ہر چند کہ یہ تاثر مکمل طور پر دُرست نہ تھا۔
ندیم کی اداکاری میں ان کی اپنی انفرادیت کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ ممکن ہے، انہوں نے دلیپ کمار سے اداکاری کے فن کا فیض پایا ہو اور پاک و ہند کا کون سا اچھا اداکار ہے، جس نے دلیپ کمار سے کچھ نہ سیکھا ہو، وہ اداکاری کا ایک اسکول تھے۔ شفاف پانی کا ایسا کنواں، جس سے سارے ہی اچھے اداکاروں نے پیاس بجھائی، تو اگر ندیم اپنی ابتدائی فلموں میں دلیپ کمار سے متاثر رہے، تو یہ کوئی انہونی یا تعجب خیز بات نہ تھی۔ اپنی بعد کی فلموں میں وہ ایسے اداکار کے طور پر سامنے، جس کی اداکاری کا جوہر اس کا اپنا تھا۔ فلم ’’نادان‘‘ سے فلم ’’آئینہ‘‘ تک انہوں نے جتنے بھی کردارادا کیے۔ اس میں ان کی اپنی انفرادیت نمایاں رہی۔
اداکار ندیم، جن کا اصل نام نذیر بیگ ہے۔ 19جولائی 1941ء کو آندھرا پردیش کے شہر وج واڑا میں پیدا ہوئے۔ قدرت نے انہیں دل کش آواز سے نوازا تھا، چناں چے انہیں اپنے زمانہ ٔ طالب علمی ہی میں گلوکاری کا شوق ہوگیا تھا اور وہ پرائیویٹ محافل موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگانے لگے۔ اداکاری سے تب انہیں فقط اتنی ہی دل چسپی تھی کہ ریڈیو پر اداکار و صداکار طلعت حسین کے ڈرامے انہیں اچھے لگتے تھے اور وہ یہ ڈرامے سُن کر طلعت حسین کو داد دینے سے کسی سے پیچھے نہ رہے تھے۔ تب کسے معلوم تھا، خود نذیر بیگ کو بھی جنہیں کہ ایک دن وہ مقبولیت اور ہردل عزیزی میں خود اداکاری کے میدان میں طلعت حسین کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ یہ تقدیر کے کھیل ہیں کہ آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہے۔ آدمی کے خواب کچھ ہوتے ہیں اور تعبیر کچھ اور ہی نکلتی ہے۔
ندیم، اگرگلوکاری کو ترک نہ کرتے، تو وہ ایک کام یاب گلوکاربھی بن سکتے تھے، لیکن اداکاری کا فن محنت طلب ہے اور بہت زیادہ وقت مانگتا ہے۔ فلم ’’چکوری‘‘ میں ان کا گایا ہوا نغمہ ’’کہاں ہے تم کوڈھونڈ رہی ہیں‘‘ فلم بینوں میں بہت مقبول ہوا اور ایک اطلاع کے مطابق ڈھاکا جانے سے پہلے ممتاز موسیقارنثاربزمی نے ان کی آواز میں ایک گانا ’’بہت یاد آئیں گے وہ دن‘‘ بھی ریکارڈ کیا تھا ، جسے بعد میں مہدی حسن نے بھی گایا۔ ندیم کا یہ گانا بھی گائیکی کے اعتبار سے مکمل اور دل کو موہ لینے والا تھا۔
انہوں نے فلموں کے لیے بعد میں بھی چند ایک گیت گائے، جو آج بھی شوق سے سُنے جاتے ہیں، لیکن ندیم سمجھ گئے تھے کہ معاوضے کی ادائیگی اور مقبولیت و ہردل عزیزی کے اعتبار سے فلمیں زیادہ منافع بخش ہیں۔ گائیکی میں وہ کتنی ہی محنت کرلیتے، مہدی حسن اور احمد رشد ی کو پیچھے چھوڑنا مشکل بلکہ ناممکن تھا، لیکن اداکاری میں انہوں نے نہایت تیزی سے اپنا ایک مقام بنا لیا۔ وحید مراد ان کی مقبولیت سے ہراساں ہوئے اور جب فلم سازوں نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، تو وہ اسی صدمے کو سینے سے لگائے دنیا چھوڑ گئے۔
رہے محمد علی تو عمر کی زیادتی اور اپنی آواز کے غیر محتاط استعمال کی وجہ سے خود ان کی آواز بھی متاثر ہو گئی تھی اور فلم بینوں میں وہ اپنی ہر دل عزیزی تیزی سے کھوتے جارہے تھے۔ ندیم کی فلمی دنیا میں آمد کے بعد نئے اداکاروں کے رستے بھی کھلتے جا رہے تھے اور اداکار شاہد، اداکار غلام محی الدین اس خلا کوپر کرنے کے لیے آگئے تھے، جو وحید مراد اور محمد علی نے خالی کیا تھا، لیکن ندیم کی اداکاری پر زوال نہیں آیا۔ ان کی فلم ’’آئینہ‘‘ نے سپر ہٹ کام یابی حاصل کی اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ کئی اعتبار سے وحید اور محمدعلی سے زیادہ وراسٹائل اداکار ہیں۔ ندیم نے ایک بھارتی فلم میں بھی قسمت آزمائی کی اور اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے ایسے جوہردکھائے کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری اور وہاں کے فلم بین بھی ان کے فنکارانہ ٹیلنٹ کے قائل اورگھائل ہوگئے۔
وقت جیسے جیسے گزرتا گیا۔ فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ ندیم میں یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ انہیں نئے زمانے اور نئی فلموں کا ساتھ دینے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ وقت بڑا ظالم ہے، ہر عُروج کو زوال ہے اور جو لوگ ان کے وقت میں ایک اداکار کے فن کی پُوجا کرتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسے بھولنے اور فراموش کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ چُناں چہ ندیم نے اپنے آپ کو بدلنے کی طرف ایک قدم اٹھایا اور اپنا ہیئراسٹائل بدل لیا۔ نیا ہیئر اسٹائل نئے زمانے اور نئے فیشن کے مطابق تھا، لیکن ایک ہیئر اسٹائل کے بدلنے سے وقت تو نہیں بدلتا اور نہ تقدیر کے فیصلے ہی بدلتے ہیں، لیکن ندیم معتدل مزاج اور بہت سمجھدار انسان تھے۔
انہوں نے اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ اب ان کی عمر ہیرو بننے کی نہیں رہی۔ اب انہیں سائیڈ رول بھی کرنے پڑیں، تو اسے انہیں قبول کرلینا چاہیے۔ ہیئر اسٹائل اور عینک کے ساتھ وہ کئی فلموں میں سلور اسکرین پر نمودار ہوئے، تو نئے فلم بینوں نے ان کی اداکاری کو قبول کر لیا۔ اسی لحاظ سے دیکھا جائے تو ندیم کی اداکاری کئی زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ بیسویں صدی میں فلمی دنیا میں داخل ہوئے اوراکیسویں صدی تک انہوں نے فلمی دنیا میں راج کیا۔ وہ ہمارے اداکاروں میں سب سے زیادہ سمجھدار، باشعور اور معتدل مزاج فن کار ہیں، جنہوں نے اپنی کام یابی کو کبھی اپنے دماغ میں داخل نہیں ہونے دیا اور فلم انڈسٹری میں اپنی پوزیشن بدلنے کو اپنی ناکامی سے تعبیر کرنے کے بجائے اس بدلی ہوئی حقیقت کو قبول کر لیا۔
یہی وجہ ہے کہ اداکار وہ آج بھی ایک کام یاب اداکار اورکام یاب انسان ہیں۔ اداکاری نے انہیں بام و عُروج تک پہنچایا اور زمانہ بدلا ، تو انہوں نے ماضی کا رونا رونے اور سستی شہرت کا پیچھا کرنے کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لیا۔ وہ ایک اچھے اورکام یاب اداکار کی حیثیت سے اپنا مقام دلوں اور ذہنوں میں بنا چکے ہیں اور یہ ان کے لیے بہت کافی ہے۔