• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بقایاجات کی عدم ادائیگی: وفاق کو گیس بند کرنے کی دھمکی

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے سرد علاقوں میں ان دنوں جہاں شدید سردی کا راج ہے وہاں گیس کی عدم فراہمی کے خلاف آئے روز شہری سراپا احتجاج نظر آتے ہیں، ان مظاہروں میں خواتین سمیت بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی ہے، یوں تو بلوچستان سے گیس سوئی کے مقام سے1950 کی دہائی میں دریافت ہوئی تاہم کوئٹہ کو بھی 1980 کی دہائی میں گیس فراہم کی گئی جبکہ دیگر چند شدید سرد علاقوں کو تو بہت دیر بعد گیس فراہم کی گئی، کوئٹہ میں جنوری کے اوائل سے جمانے دینے والی سردی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں بارشوں اور برفباری کے بعد مسلسل کئی کئی دن تک درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے رہا، پارہ کئی بار نقطعہ انجماد سے دس ڈگری سینٹی گریڈ نیچے جاتا رہا جبکہ صوبے کے دیگر سرد ترین علاقوں خاص طور پر صوبے کے شمالی علاقوں میں برفباری کے بعد تو معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے، شدید سردی نے گویا زندگی منجمند کرکے رکھ دی۔

دوسری جانب ہڈیوں میں اتر جانے والی سردی میں بھی گیس کی عدم فراہمی نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی صوبے کے سرد علاقے تو دور کی بات کوئٹہ میں بھی شہری گیس کو ترس کر رہ گئے، اس دوران شائد ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوا ہو اور شدید سرد موسم میں کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں شہریوں کی جانب سے شاہراہوں کو بند کرکے احتجاج نہ کیا ہو اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوئی سدرن گیس کمپنی کے کوئٹہ میں واقع دفتر کے سامنے دھرنوں کے ساتھ احتجاجی مظاہرئے بھی کیے گئے جبکہ کئی ایک جماعتوں نے مزید دھرنوں اور احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ 

یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں گیس روزمرہ کے استعمال میں لائی جاتی ہے جبکہ بلوچستان کے انتئای سرد ترین علاقوں میں گیس زندگیاں بچانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے اس بات کا تصور بھی وہی کرسکتے ہیں جنہوں نے شدید سرد موسم میں گیس کے بغیر زندگی گزاری ہو، دوسری جانب اس سال جنوری کا مہینہ گیس سے دم گھٹ کر یا گیس سے استعمال ہونے والے آلات کے دھماکوں کے باعث انتہائی تباہ کن ثابت ہوا ہے، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گیس سے ہلاکتوں کا نہ روکنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے رواں ماہ کے 26 روز 12 بچوں سمیت 22 افراد جاں بحق جبکہ پانچ خواتین سمیت 10 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ 

سرد موسم میں گیس کی عدم دستیابی اور گیس حادثات میں قیمیتی جانوں کے ضیاع ہونے کے حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازا اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی وزیر توانائی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے ، وزیراعلیٰ بزنجو نے کوئٹہ میں بڑھتے ہوئے گیس حادثات کے باعث اموات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے گیس کمپنی کے غیر زمہ دارانہ رویہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کردیا ہے وزیراعلی کا واضح موقف اختیار کیا ہے کہ گیس پریشر میں کمی کی وجہ سے شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور چند دنوں میں گیس حادثات میں بڑی تعداد میں انسانی جونوں کا ضیاع ہوا ہے۔ 

وزیراعلیٰ بزنجو نے گیس پریشر کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا ہے دراصل یہ اس وقت عوام کی مجموعی تشویش ہے جبکہ گیس حادثات کے باعث قمیتی انسانی جانوں کے ضیاع سے عوام میں تشویش کے ساتھ خوف بھی ہے کہ کبھی بھی کچھ ہوسکتا ہے اگرچہ ماضی میں بھی گیس حادثات کے باعث اموات ہوتی رہی ہیں لیکن اس سال صرف جنوری کے ایک ماہ میں صورتحال تباہ کن ہے ، وزیراعلیٰ نے بھی موقف اختیار کیا ہے کہ شدید سرد موسم میں شہریوں کو گیس میسر نہیں بلوچستان طویل عرصہ تک ملک کی گیس کی ضروریات پوری کرتا رہا ہے لیکن آج جب ہمیں گیس کی ضرورت ہے تو گیس دستیاب نہیں وزیراعلیٰ نے گیس کی فراہمی کے حوالے سے پوچستان کے ساتھ امتیازی رویہ کو ناقابل برداشت قرار دیا، جو نہ صرف درست ہے بلکہ بلوچستان کے عوام اور یہاں کی سیاسی جماعتوں کا بھی یہی موقف ہے یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ بلوچستان سے نکلنے والی گیس جو ملک کے دوسرے صوبوں کو تو ملی مگر ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے دریافت ہونے والی گیس سے کئی دہائیوں تک ڈیرہ بگٹی کے عوام بھی محروم رہے۔ 

گیس کی عدم فراہمی پر عوام اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج تو ہمیشہ دیکھنے کو ملتا رہا ہے جسے ہمیشہ وفاقی حکومت اور گیس کمپنی کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی وزیراعلیٰ کی جانب سے اس قدر سخت موقف کے بعد بھی اس حوالے سے صورتحال میں ان سطور کے تحریر کیے جانے تک کوئی بہتر نظر نہیں آرہی، شائد صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعلیٰ بزنجو نے وزیراعظم اور وفاقی وزیر توانائی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گیس کمپنی کے رویہ کے باعث شہریوں میں اشتعال پایا جاتا ہے اور گیس کی عدم دستیابی کے باعث امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا احتمال ہے جس کی زمہ دار گیس کمپنی ہوگی ، وزیراعلیٰ بزنجو کے اس قدر سخت ردعم کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کی وفاقی حکومت کی جانب سے اس کا فوری نوٹس لیا جاتا لیکن اس بار اور اس مسلے پر بھی وفاقی حکومت کا بلوچستان کے حوالے سے روایتی سرد مہری قائم ہے۔ 

دوسری جانب اب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو گیس پریشر میں کمی و گیس حادثات میں ہونے والی اموات پر برہم اور وزیراعظم سے مداخلت کا مطالبہ کررہے ہیں تو دوسری جانب گیس واجبات کی عدم ادائیگی پر صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمرک خان اچکزئی وفاق کو گیس بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، ملک میں مہنگائی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کے بعد صوبے میں عوام کی اکثریت کے لئے مہنگے داموں ایل پی جی اور سوختی لکڑی خریدنا ممکن نہیں رہا ، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت ماضی کے رویئے میں تبدیلی لاتے ہوئے صوبے کو ضرورت کے مطابق گیس کی فراہمی کو اس لئے بھی یقینی بناے کہ بلوچستان کے سرد علاقوں میں گیس دیگر امور کے ساتھ انسانی جانیں بچانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید