• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی تعلیمات میں مذہبی رواداری اور امن و سلامتی کا تصور

مولانا نعمان نعیم

سوئیڈن میں کچھ روز قبل اسلامو فوبیا کے شکار انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن کریم کی بے حرمتی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔ سرکاری سطح پرسوئیڈن میں دائیں بازو کے سیاست دان کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک سازش کی گئی۔حسبِ سابق اسے’’آزادی اظہار رائے‘‘ کا نام دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔اس واقعے پر دنیا بھر کے مسلم ممالک میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور اس ناپاک جسارت پر سوئیڈن کی حکومت سے بھی شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔

بلاشبہ، قرآن پاک کتاب ہدایت ،کتاب نور، کتاب انقلاب، آخری آسمانی صحیفہ ہے جو اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی و رسول خاتم الانبیاء والمرسلینﷺ کو پوری انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کےلیے عطا کی ہے، اس کی بے حرمتی کسی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی، اس حرکت سے کروڑوں اہل اسلام کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔ سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اسلام کی مقدس کتاب کی توہین سے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ 

قرآن کی توہین کا عمل احمقانہ، اشتعال انگیز اور اسلاموفوبک ہے، یہ غیر اخلاقی واقعہ بلاوجہ اشتعال انگیزی اور دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا عمل ہے، یہ قابل مذمت عمل بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں اور آزادی اظہار رائے کے اصولوں کے منافی ہے، آزادی اظہار رائے، نفرت انگیز تقاریر اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی اجازت نہیں دیتی، اس گھناؤنے فعل نے مسلمانوں کو ان کی مقدس اقدارکی توہین کرکے دکھ پہنچایا ہے، یہ عمل دنیا میں اسلاموفوبیائی خطرناک سطح کوظاہر کرتاہے،عالمی برادری اسلاموفوبیا کے خلاف مشترکہ عزم کامظاہرہ کرے ، انتہا پسنداور بنیاد پسند عناصر کو نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے فرانس میں سرکاری سطح پرخود ساختہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں پیغمبر اسلام ﷺکے گستاخانہ خاکے دنیا کے امن و امان کو برباد کرنے کی ایسی سازش تھی جو ہر مذہب کے سنجیدہ و باشعور لوگوں کے نزدیک انتہائی قابل مذمت ہے۔جب کہ رواداری کا سب زیادہ اسلام نے خیال رکھا ہے، حالانکہ تاریخ انسانیت میں یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب یا نظریہ تلوار کے بغیر نہیں پھیلا۔ گویا تلوار اور جنگ غلبہ دین اور افکار و نظریات کی ترویج کے لئے ایک ضروری چیز رہی ہے، مگر اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے جنگ کے اصول مقرر کئے۔

اسلام ایک آفاقی اور عالمگیری مذہب ہے ،اس کی تعلیمات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں، اسلام صرف کسی خاص طبقے،تہذیب اور رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں بناتا، بلکہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے،یہ دین رحمت ہے۔چنانچہ لفظ اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں، پھر اسلام جس وحدہ لاشریک رب کومعبود قرار دیتا ہے، وہ رحمٰن و رحیم بلکہ ارحم الراحمین ہے، اسلام جس ذات کو پیغمبر مانتا ہے،وہ رحمۃ للعالمین ﷺ ہیں، اسلام کا قبلہ امن کا گہوارہ ہے، لہٰذا اسلام کے معنی،اس کے مقاصد وتعلیمات،اس کا آغاز و ارتقاء اور اس کی اشاعت تمام ہی امن و سلامتی کے ضامن ہیں، تو اس مذہب سے زیادہ امن وسلامتی کہاں ہوسکتی ہے؟

ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح ؑکو دیا گیا، اور جس کی وحی آپ ﷺکو کی گئی،اور جس کا حکم موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(سورۂ شوریٰ) ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرامؑ کا رہاہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے، اسی کا نام اسلام ہے،ارشاد ہے، ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔(سورۂ آل عمران) ایسےدین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقے کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے، تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔اسلام عالمی اور آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات تمام افرادِ بشر کے لیے ہیں، یہ کسی خاص طبقے، علاقے،تہذیب یا رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا، بلکہ یہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے ،یہ سب کے لیے دین رحمت ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: دنیا میں میری رحمت ہر مومن و کافر، نیک اور بد، سب پرچھائی ہوئی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں رزق اور صحت و عافیت کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، ارشادِ ربّانی ہے:’’اور(اےپیغمبر!) ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔‘‘ (سورۃالانبیاء)

سورئہ احزاب میں فرمایا گیا:’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺکی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ یعنی صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات ہی عقائدو افکار، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، سیاست، معاشیات،غرض ہر شعبۂ زندگی میں کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں سراپا رحمت ہوں، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔(جامع صغیر)

ارشادِ ربّانی ہے’’اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ، تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات)

اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقویٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے یا قومیں اس لیے نہیں بنائے کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کا یہ دن تم پر حرام ہے۔یعنی جس طرح ’’حجۃ الوداع‘‘کا دن مسلمانوں کے لیے بڑا مقدس ہے اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

اسی طرح کسی مسلمان کا ناحق خون نہیں بہایا جا سکتا،اس کا مال نہیں چھینا جا سکتا اور اس کی آبروریزی نہیں کی جا سکتی۔ شریعت نے ہمیشہ رواداری اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشادِ رب العزّت ہے:ترجمہ:’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو، انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے تمام کام سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔رواداری کے سلسلے میں یہ آیت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ رواداری کو عدل کا مترادف قرار دیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان یا رنگ و نسل میں اختلاف رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ خواہ وہ دوست ہو یا دشمن اس کے ساتھ آپ عدل و انصاف کا معاملہ کریں، اس کے مذہب وغیرہ کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے، نہ کسی طرح کی زیادتی یا ظلم روا رکھا جائے۔ آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ کسی قوم سے تمہاری عداوت اور دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ دو، بلکہ تمہیں تو ہر حال میں انصاف ہی کرنا ہے۔

اس لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے اور دوسروں کے مذہب ، عقائد و نظریات وغیرہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور ان کے ساتھ مذہبی، سیاسی، فکری اور علمی رواداری کا معاملہ کیا جائے۔’’اسلام‘‘ سلامتی اور ’’ایمان‘‘ امن سے عبارت ہے،یہ دینِ انسانیت اور امن و سلامتی کا علم بردار ہے،دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد امن و سلامتی اور مذہبی رواداری پر قائم ہے۔

سورئہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی‘‘۔یعنی آدمی کو حسن صورت ، نطق، تدبّر اور عقل و حواس عنایت فرمائے جن سے وہ دنیوی اور اخروی منافع اور نقصان کو سمجھتا ہے اور اچھے برے میں تفریق کرتا ہے۔ غرض نوع انسانی کو حق تعالیٰ نے کئی حیثیت سے عزت و بڑائی دے کراسے اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت دی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:’’پھر بھی یہ کافر اگر منہ موڑتے رہیں تو (اے پیغمبر!) آپ کی ذمے داری صرف اتنی ہے کہ واضح طریقے سے پیغام پہنچادو‘‘۔(سورئہ النحل)یعنی اس قدر احسانات سن کر بھی یہ اللہ کے سامنے نہ جھکیں تو آپ کچھ غم نہ کھایئے، آپ اپنا فرض ادا کرچکے، کھول کھول کرتمام ضروری باتیں سنادی گئیں، آگے ان کا معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔

سیدنا فاروق اعظمؓ کا ایک غیر مسلم غلام تھا، آپ کی دلی خواہش تھی کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائے تو اسے کوئی ذمے داری دے دی جائے، آپ نے اس سے بار ہا اپنی خواہش کا اظہار بھی فرمایا، لیکن اس نے ہمیشہ انکار کیا، حضرت عمرؓ اس کے انکار پر ہمیشہ یہی فرماتے:’’لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدَّیْن‘‘پھر آپ نے اسے آزاد فرمادیا۔(کتاب الاموال)

ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:’’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کرکے دعوت دو‘‘۔(سورۃ النحل) اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں تو مسلمانوں کو اسلام کی یہ ہدایت ہے کہ وہ امن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات و رواداری، ہمدردی ویک جہتی، فیاضی اور انسانیت نوازی پر مشتمل اسلامی تعلیمات سے غیر مسلم حضرات کو روشناس کرائیں اور انہیں موثر نصیحت اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت پیش کریں، لیکن کسی طرح دبائو ڈالنے اور زور و زبردستی کی کوشش نہ کی جائے، اگر وہ نہ مانیں اور مذہب کے سلسلے میں مذاکرات اور بحث و مباحثہ کرنا چاہیں تو نہایت فراخ دلی اورخوش اسلوبی کے ساتھ مذہبی گفت و شنید ہونی چاہیے۔ اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے، تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔