موسم بہارکا خوش گوار ساون ،رم جھم کاشور، ہواؤں کی اٹھکیلیاں، ٹھنڈی پھوار کا زور، بھیگی رت کا دل کش سماں،چہکتے پرندے کی صدا،مور کا ناچ، کھلتے پھولوں کا جوبن ،صندل کی شادابی ،سبزے کی ہریالی ،دوستوں کی دوستی، مہربان رفاقت کا احساس ،پیار کا ساز، اپنوں کی اپنائیت ،قہقہوں کی برسات ،خوشی کاچھلکتا احساس، یاروں کی محفل کی کہانیاں، دبی دبی ہنستی جوانیاں، کھلتی مسکراہٹ، پیاروں کی باتوں کی شفقت اور نرمی اور مجلسوں کو گرماتی خطابت کی گرمی یہ سب چیزیں جب مجھے سرشار و بے خود کر دیتی ہیں تو بے ساختہ قلم ہاتھ میں لے کر قرطاس پر اپنے شگفتہ جذبات بکھیرنے کو دل چاہتا ہے اور میں لکھتی چلی جاتی ہوں۔
یا پھر ماحول کی اداسی ،خزاں کے پتوں کی بے بسی ،پت جھڑ کا نو حہ ،گہرا خاموش سماں،چیختا سناٹا،بین کرتی فضائیں، گرم چلتی ہوائیں، سرد رات کا اکیلا مسافر,چمکتاہوا چاند،دھند کی دبیز چادر، کہر کا قہر,بڑھتی ہوئی گہری کالی رات کا ڈر,یا پھر غم زدہ ماحول کی خاموشیاں,تماشائیوں کی سر گو شیاں،اپنوں کی بے مہری اور غیروں کی تمسخر امیز نگاہیں جب مجھے اندر سے بے چین کر دیتی ہیں تو میں قلم کا سہارا لے کر قرطاس پر موتی بکھیرتی چلی جاتی ہوں۔
یا پھر ماضی کا غم ،حال کاستم ،مستقبل کا جتن ،حالات کی تلخی ،وقت کی سختی ،ناانصافیوں کا گرم ہوتا بازار،جرم وستم کا بڑھتا کاروبار،تار تار ہوتی ردائیں،بلکتی صدائیں، معصوموں کے نوحے،ماؤں کے پھٹتے کلیجے، کڑیل جوانوں کے لاشے، سیاست کے تماشے،شہروں پر ہو کا عالم۔جیسے اسیب نگری پر رہتےہم ،وحشت زدہ اضطرابی چہرے اور دوسروں کے اشارے پر ناچتے مہرے دیکھ کر جب اپنے اندر گھٹن کا احساس ،حبس کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے تو اس گھٹن کو کم کر نے کے لیے لکھتی ہوں۔
یا پھر ذرائع ابلاغ کی حد سے بڑھتی ہوئی آزادی ،نوجوان نسل کی بے باکی ،والدین کی پر یشانی ،دور حاضر میں عریانیت کو فروغ دیتی شیطانی ،مجھے بے اختیار لکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یا پھر شاعروں کی حسین شاعری ،ادیبوں کی خوب صورت تخلیق ،دانش وروں، مفکروں کی نظریاتی بحث ،قلم کو قرطاس پر تحریر رقم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا