فرحی نعیم
سال نو کا آغاز ہوا چکا ہے۔ ماہ جنوری اپنی نرم گرم دھوپ ،مختصر دن، جاڑے کے ٹھٹرتے ایام،(اگرچہ کراچی والوں کے لئے سردی بس مختصر ہی ہوتی ہے) ۔ہم پر چھا چکے ہیں۔ پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو وہ انفرادی جہد ہو یا اجتماعی سعی، ملکی حالات ہوں یا بین الاقوامی معاملات ، سوائے خسارے اور سود وزیاں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ تعلیم تجارت، معیشت ،معاشرت،سیاست، میڈیا ،عدلیہ ،مقننہ ہر طرف مایوسی کی اتھاں گہرائیاں ہیں، لیکن چونکہ مایوسی گناہ ہے۔
اب دوسری طرف دیکھیں تو ایک اور جنوری آ گیا ،ایک اور سال کی ابتدا، اور ایک نئے برس کا آغاز۔ سال کے آغاز کی اگرچہ بات کریں تو ان سرد دنوں کی شاموں سے بات شروع کرتے ہیں، کیوں کہ ہر نئے سال کی شروعات سرد ایام سے ہوتی ہیں۔ اور ان سرد رتوں کو ہم نے نہ جانے کیوں اداسی کی علامت قرار دے دیا، شاید اس لیے کہ نیا سال خوشی کے ساتھ گزرے شب وروز کا حساب کتاب بھی ساتھ لاتا ہے، عام دنوں میں تو وقت اور بے مصرف مصروفیات کا ہم شمار نہیں کرتے، لیکن جیسے جیسے بارہ مہینے سرعت سے گزرتے چلے جاتے ہیں، ہم بھی دھڑکتے دل اور سکرتے لمحوں کو اپنی مٹھی میں دبا لینا چاہتے ہیں، ہے نا طفلانہ خواہش؟ اور جب خواہش، بلکہ خواہشات کی بات کریں، کیوں کہ ہم خواتین کی خواہشات و جذبات،کی کوئی سرحد نہیں، کوئی شمار نہیں، یہ چاہ تو وہ رنگین پنکھ ہے جو اونچا اور اونچا، ہوا کے دوش پر اڑی جاتی ہیں۔
نئے سال کا آغاز کیا ہوتا ہے، خواتین کی خوابیدہ آرزوئیں بھی جیسے بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ تمام تشنہ تمنائیں جو سال گزشتہ میں ناتمام حسرتوں کی صورت میں ڈھل کر کسی کونے میں دبی ہوئی تھی، دوبارہ انگڑائی لے لیتی ہے۔ یہ حقیقت جانے بغیر کہ کبھی کبھی لاحاصل کا ہونا بھی حاصل سے ضروری ہے۔ آپ کی مضبوطی و قوت آپ کے سخت اور پیچیدہ حالات میں مخفی ہیں۔
اگرچہ منصوبہ بندی کر تے ہوئے آنے والے برسوں و مہینوں کا حساب کتاب رکھنا اور سال گزشتہ کے آدھے ادھورے خوابوں کو تعبیر دینا بھی مقصد ہونا چاہیے ، کیوں کہ خواب بڑے ہوں گے تو مقصد بھی بڑے ہوں گے۔ اپنی زندگی کو بڑے خوابوں سے جوڑیے، ایسے خواب جو کھلی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔جن میں پانے، آگے بڑھنے اور کچھ حاصل کر نے کی جستجو ہوتی ہے۔زندگی ، مسلسل آگے بڑھنے اور مشقت کا نام ہے ۔ لہٰذا اپنے کچھ گولز بنائیے اور اس کے حصول میں ڈٹ جائیے ۔اہداف بنائے بغیر کوشش کرنا نہ تو موثر و مثبت نتائج دیتا ہے اور نہ اثر انگیزی رکھتا ہے، پھر آپ کو ا س پر زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔
لہٰذا اپنے نئے سال کو چند ایسے سپنوں سے جوڑیں جن کی تعبیر صرف اپنی ذات سے ہی وابستہ نہ ہو بلکہ مستقبل قریب میں وہ لوگوں کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کو مل بیٹھنے، خوشگوار یادوں کو دہرانے، گرما گرم کافی ، حلوہ جات، اور کاجو، اخروٹ، چلغوزوں سے لطف اندوز ہونے کا موسم بھی تو بنایا جا سکتا ہے۔ ہماری حیات سے وابستہ پرلطف موسم نہ جانے کس پہر ٹھہر جائیں، کب زندگی کی شام ہو جائے، اور نہ جانے کب یہ اڑتے پرندے، ڈھلتی شفق،نیلے اودے بادل ، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتی دوڑتی لہروں کے مناظر، ہمارے لیے بجھ جائیں ۔تھم جائیں، آئیں اپنی زندگی کی خوشگوار شاموں کو یادگار بنائیں ، کیوں کہ اب فرصتیں ہوتی نہیں، نکالی جاتی ہیں۔
لوگوں کی برائیوں اور غلط باتوں کو نظر انداز کیجیے ، غلطیوں پر پردہ ڈالیں،معذرتوں کو کھلے دل سے قبول کر لیں، خوبیوں کو سراہیں،کوششوں کی حوصلہ افزائی کیجیے ، آپس کی چپقلش ، کدورتیں ، کسی صندوقچی میں بند کرکے تالا لگا ئیں۔ ہر بند کواڑ پر دستک دیں اور مسکراہٹوں کی چابی سے ہر بند دل کا قفل کھول دیں، مشینی دور نے زندگی کو، انسان کو، وقت کو غرض یہ کہ ہر شے کوخود کار بنا دیا کہ انسان ان لمحوں کو ترس گیا،جن کو گئے وقتوں میں وافر پاتا تھا ، کیوں ہم نے زندگی کو بھی کیلکولیٹر میں درج علامات کے مانند جمع، تفریق اور ضرب بنا دیا۔
ریاضی کا ایک قانون تقسیم بھی تو ہے۔ اسی کو بھول کر زندگیوں کو بھی دس کا پہاڑہ بنا دیا۔ وقت کی ناقدری میں ویسے تو ہماری قوم سب سے آگے ہے۔ لیکن دل داری اور محفل سجانے میں بھی جواب نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ،قیمتی گھڑیوں کو مٹھی میں قید کر لینا چاہیے۔ اگر آپ کے پاس کچھ وقت دوستوں کے لیے ہے تو اسے غنیمت جانیں۔ کہتے ہیں گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔ اپنی روز مرہ کی مصروفیات سے چند لمحے مستعار لیں، فون اٹھائیں اور دل کی باتیں کریں، خوشی کی تتلیوں اور مسرتوں کے جگنوؤں کو وقت سے چھین لیں ،کیوں کہ یہ آسانی سے ہاتھ لگنے والے نہیں۔
لہٰذا ان پلوں کو مستقبل کی حسین یادیں بنانے کے لیے اپنے آج کو منظم کیجئے۔ جاڑے کی گلابی شاموں کو دوستوں کی سنگت سے گل رنگ وخوشگوار شام میں تبدیل کرلیں۔ کبھی کبھی موج، مستی والی محفل بھی سجائی جا سکتی ہے۔ بس دل کی بستی کا موسم مسحورکن ہونا چاہیے، اندر والا مطمئن ہو ، سوچ، سیدھی راہ پر چلنے والی ہو تو زندگی کی گاڑی بھی راستے کے گڑھے ، پتھر ، خار،تعفن، کیچڑ اور ایسی ہی دوسری ناہمواریوں سے آہستہ آہستہ مقابلہ کرنا اور ان کو صاف کرنا سیکھ ہی جاتی ہے، بس اپنا ارادہ نہ بدلنا ہے اور نہ ہی کمزور پڑنا ہے، مضبوطی سے زندگی کی کٹھن راہوں پر سبک رفتاری سے چلتے چلے جانا ہے۔