گلاسگو (طاہر انعام شیخ) بینک آف انگلینڈ نے اپنی بنیادی شرح سود کو نصف فیصد بڑھاتے ہوئے ساڑھے تین سے 4 فیصد کر دیا ہے تاکہ افراط زر کو کم کرنے میں مدد ملے۔ گزشتہ14سالوںمیں شرح سود میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ایسے افراد جو اپنی بچتوں پر بینک سے منافع حاصل کرتے ہیں ،انہوں نے تو شرح سود بڑھنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن ایسے لوگ جنہوں نے بینک سے مارگیج لے رکھا ہے یا لینے کا ارادہ رکھتے ہیں یا وہ بینک کے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہیں یہ خبر ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دے گی۔ شرح سود 4 فیصد تک جانے کا مطلب ہےکہ ایک ٹریکرمارگیج حاصل کرنے والے فرد کو اب ماہانہ 49 پونڈ زیادہ کی ادائیگی کرنا پڑے گی جبکہ تغیر پذیر مارگیج لینے والوں کی رقم میں 31 پونڈ ماہانہ کا اضافہ ہوگا۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسی ہم فتح کا دعویٰ تو نہیں کر سکتے لیکن اس بات کے اثار ہیںکہ مہنگائی کا رخ اب اوپر سے نیچے کی طرف بدل رہا ہے۔ برطانیہ ابھی کساد بازاری کی طرف گامزن ہے لیکن یہ کساد بازاری سابقہ اندازوں سے کم شدت کی حامل اور کم عرصے پر محیط ہوگی۔ جی ڈی پی ایک فیصد تک سکڑے گی جو پہلے تین فیصد سکڑنے کا امکان تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عرصہ اب دو سال کے بجائے ایک سال تک محیط ہوگا۔ تھوک توانائی کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ افراط زر اپنے عروج پر پہنچ کر کم ہونا شروع ہو گئی، اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافے کی رفتار سست رہے گی۔ صورتحال بہتر ہونے پر امید ہے کہ کمپنیاں اب اپنے سابقہ اندازوں کے برعکس کم افراد کو ملازمتوں سے فارغ کریں گی جس سے بے روزگاری نہیں بڑھے گی۔ جی ڈی پی میں 2023 میں 0.5 فیصد کمی متوقع ہے جو کہ 2024 میں 0.25 تک پہنچ جائے گی، اور پھر یہ 2025 میں ایک فیصد اضافے کے بعد اوپر آنا شروع ہو جائے گی۔ گورنر نے کہا کہ بریگزٹ، کوویڈ اور توانائی کے بحران سے معیشت کو مستقل بنیادوںپر متاثر کیا ہے۔