• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ذہنی صحت کیلئے ’بور‘ ہونا اچھا ہوتا ہے؟

آج کے انسان کا روزمرہ معمول کچھ اس طرح ترتیب پاچکا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹس سے لے کر تمام ای میلز کو چیک کرنے، تمام کاموں کو مکمل کرنے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے تک ہر چیز کے لیے دن کے 24 گھنٹے کم پڑ جاتے ہیں۔ مزید برآں، کسی کام کے دوران تھوڑی سی فراغت ملتے ہی لوگ تفریح کے لیے اپنے موبائل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصروں کا جواب دینا اور کبھی کچھ اور۔ اس تمام تر گہماگہمی یا افراتفری کے درمیان یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ بور ہونا بھی ایک آسان اور مفید آپشن ہے۔

حال ہی میں ایک بین الاقوامی طبی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے خیالات اور نظریات کے ساتھ تنہا رہنے کے بجائے خود کو ’بجلی کا جھٹکا‘ دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک تحقیقی تجربے کے حصے کے طور پر، کچھ لوگوں کو ایک کمرے میں 15 منٹ تک اکیلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ 

ان تمام لوگوں کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں کچھ نہیں کرنا ہے۔ ایک ہی آپشن تھا، ایک بٹن دبانا، جس سے انھیں ہلکے بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔ تجربے میں شامل 42 افراد میں سے تقریباً نصف نے کم از کم ایک بار وہ بٹن دبایا، جب کہ انھیں بجلی کے جھٹکے کا احساس پہلے ہی ہو چکا تھا۔ ایک شخص نے 15 منٹ تک بیکار بیٹھے رہنے کے دوران 190 بار بٹن دبایا۔ تجربے کی روشنی میں تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ، ’’ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ بیکار بیٹھے ہوئے بھی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

ہمارا دماغ 24 گھنٹے کام کرتا ہے اور اس کا کام ہمارے سونے کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ نیند کے دوران یہ تناؤ پیدا کرنے والے تمام عوامل کو سنتا اور ان کا انتظام کرتا ہے تاکہ آپ اپنی نیند اچھی طرح پوری کر سکیں۔ یہ حصہ جو ہمارے جسم میں ہمیشہ ’آن‘ رہتا ہے کبھی بریک یا رخصت نہیں لیتا۔ لیکن نیورو سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ نیند ایک ایسا ہی عمل ہے، جس میں اگرچہ ہمارا دماغ کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن اس دوران یہ خود کو ٹھیک بھی کرتا ہے۔ اسی لیے نیند کا بور ہونا بھی ہماری صحت کے لیے ضروری ہے۔

اطالوی لوگ بور ہونے کی اس خوبی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہاں تک کہ وہاں ایک کہاوت بھی ہے ’کچھ نہ کرنے کا سُکھ‘ یہ وہاں کی ثقافت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت لوگ آرام کرتے ہیں اور کچھ نہ کرنے کی صورتحال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کرنے کا مطلب جھپکی لینا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اور بھی گہرے ہیں۔ اس کا حقیقی مطلب ہے کہ اپنے آپ کو روزمرہ زندگی کی ہلچل سے الگ کرنا، اپنے اندر جھانک کر دیکھنا، آرام کرنا اور یہ محسوس کرنا کہ آپ حال میں رہ رہے ہیں۔

نیورو سائنسدان ایلیسیا ووف، جو کہ امریکا میں رینسلیئر پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ایک محقق کے طور پر کام کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’دماغ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو کبھی کبھار بور ہونے دیں۔ بور ہونے سے ہمارے سماجی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت سے سوشل نیورو سائنسدانوں کی دریافت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جب ہم کچھ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے دماغ کی نیٹ ورکنگ سب سے زیادہ فعال ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، تخلیقی خیالات بوریت میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو بہتر خیالات میں تبدیل کرنے کا یہ اچھا موقع ہوتا ہے‘۔

برطانوی ماہِر نفسیات سینڈی مین کی کتاب ’آرٹ آف بیئنگ بورڈ‘ کی دلیل بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بوریت کا احساس اتنا مضبوط اور حوصلہ افزا ہے کہ یہ تخلیقی صلاحیتوں اور سوچ کو بہتر میں اضافہ کر سکتا ہے‘۔ سینڈی کی رائے میں جب بچے بور ہوتے ہیں تو والدین کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ انھیں چھوڑ دینا چاہیے۔ 

وہ کہتی ہیں ’بوریت کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو اس دوران کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے انھیں اپنی بوریت سے خود ہی لڑنا سیکھنے دیں۔ ان کے اندر کی تخلیقی صلاحیتیں اسی طرح کھل کر سامنے آئیں گی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ بور ہونا اچھا نہیں لگتا لیکن اس دوران ہمارے دماغ کی بیٹری چارج ہوتی ہے۔

ایک اور امریکی روزنامہ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ٹِم کریڈر کا کہنا ہے کہ، ’’بیکار بیٹھنا چھٹی جیسی چیز نہیں ہے، یہ ہمارے دماغ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہمارے جسم کے لیے وٹامن ڈی۔ کنفیوژن یا الجھن کی کیفیت ہمارے دماغ کی توجہ اور تجسس کو بڑھاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور افادیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور دیرپا یادیں بنانے میں مدد کرتا ہے۔‘‘

آج کے دور میں دفتری ای میلز، سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس پر مسلسل مصروفیت آپ کی دماغی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسے دوبارہ اسی طاقت سے متحرک ہونے کے لیے بریک لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سینڈی سمیت بہت سے ماہرین معلومات کے اس شور میں بوریت کو ایک حفاظتی عمل سمجھتے ہیں۔ 

سینڈی کہتی ہیں، ’’بطور بالغ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہم پر معلومات کی بارش ہوتی ہے۔ ہم صرف اس وقت اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب ہمیں اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ، ہم کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ ہمیں اپنی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب اسی وقت ملتی ہے جب یہ تمام چیزیں گھبراہٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے، تھوڑی سی بوریت بھی پیدا کی جائے، تاکہ کچھ نہ کرنے اور اسے قبول کرنے کی خوشی ملتی رہے۔

ان فوائد کے پیش نظر ہمیں بوریت سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنے کے بجائے اسے قبول کرنا چاہیے، ہمیں اپنے ذہن کو آزاد پھرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ سمجھنے کے لیے کہ ہم اپنی زندگی میں کیا چاہتے ہیں، بوریت ایک موقع ہوسکتا ہے۔

صحت سے مزید