• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بیٹی کے قلم سے

یا میرے مولا! یہ کیا ماجرا ہے۔ آج کے دن کے لئے تو مہینوں سے ہنگامہ بپا تھا۔ اماں ہفتوں سے بولائی بولائی پھر رہی تھیں۔ خدا خدا کرکے خیر سے اچھی جگہ نسبت طے ہوئی۔ مناسب مہلت بھی ملی تھی تیاریوں کے لیے۔ کوئی مطالبات بھی نہیں تھے لڑکے والوں کی طرف سے جن کے لئے ہلکان ہوا جائے۔ بھلے لوگ تھے اور اپنے ہی جیسے تھے، عزت دار اور سفید پوش۔ لیکن اماں کی خفقانی کیفیت تھی کہ قابو ہی نہ آتی تھی۔ 

دلہن کے کپڑے لیے، سسرال والوں کے لئے جوڑوں کی تیاریاں، زیورات کی خریداری، بازار کے چکر، درزی اور سنار کے چکر، شادی ہال کی تلاش، مہمانوں کی فہرست، دعوت نامے پہچانا، جہیز کاسامان مکمل کرنا۔دوسری طرف ابا تھے جو اپنے حساب کتاب میں لگے ہوئے تھے۔ اپنے پراویڈنٹ فنڈ، بونڈز اور چھوٹی موٹی جمع پونجی، کچھ دوستوں سے قرض لیکر بظاہر تو ہر چیز حساب کتاب میں برابر بیٹھتی تھی لیکن ایک فکر ، تشویش تو البتہ رہتی تھی۔ بازار کے بھاؤ تو ان کے بس میں نہیں تھے، جہاں چار کا سوچا وہاں آٹھ خرچ ہو رہے تھے۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ خیری سلا اب وہ دن آ ہی گیا تھا تو اب یہ سب کو کیا ہوگیا تھا۔

ہر کام ٹھیک ہوگیا تھا۔ اللہ نے عزت اور سفید پوشی کا بھرم رکھا۔ ساری تیاری، ساری بھاگ دوڑ، ساری فکریں آج ہی کے دن کے لئے تو تھیں۔ اللہ نے سر سے بوجھ اتارا۔۔۔۔لیکن یہ کیسا بوجھ تھا، سر سے اترا، دل میں بس گیا۔ ابا کی بٹیا، ان کی گڑیا، ان کے گھر کی روشنی، ان کے آنگن کی خوشبو، جگر کا ٹکڑا، اب کسی اور گھر آنگن کو اپنی خوشبو اور روشنی میں بسانے جارہا تھا۔ اماں باوا، ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنا سب کچھ کسی اور کو سونپ رہے تھے۔وہ بٹیا جس کے رشتے کے طے ہوتے وقت جس کے سگھڑپن، سمجھداری کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے آج داماد، سمدھی اور سمدھن کے سامنے گڑگڑارہے تھے۔

’’دیکھیں میاں، ابھی ناسمجھ ہے، کوئی نادانی ہوجائے، کوئی بھول ہوجائے تو اسے معاف کر دینا‘‘ لیکن اتنی بات ان سے کہی ہی کب گئی۔ وہ تو آدھی بات میں ہی گلے میں جیسے کچھ پھنس گیا۔ انہیں تو وہ چھوٹی سی گڑیا یاد آرہی تھی، جس کی کلکاریاں سن کر خون سیروں بڑھتا تھا،جس کے رونے پر بے چین ہوجاتے تھے، کندھوں پر رکھے تھپکیاں دے دے کر سلاتے۔ وہ جس سے گھر آنگن میں شور مچا رہتا، پڑوس کی سکھیوں کے ساتھ کبھی مٹی کے کھلونوں میں ہنڈکلیا پک رہی ہے تو کبھی گڑیا گڈے کی شادی ہورہی ہے۔ کبھی صحن میں یا گلی میں بھاگ دوڑ ہورہی ہے، کھوکھو، پہل دوج اور کوڑا جمال شاہی کھیلا جارہا ہے تو کبھی دوپٹّے کمر میں لپیٹے رسی کو دی جارہی ہے۔

اک فلم سی چل رہی تھی آنکھوں کے سامنےاب وہ تھوڑی بڑی ہوگئی ہے، سہیلیوں کے ساتھ پڑوس کی خالہ کے ہاں سیپارہ پڑھنے جارہی ہے ۔ دوبچیاں خالہ کے سامنے بیٹھی ہل ہل کر سبق سنا رہی ہیں۔ ایک کو خالہ نے دوپٹّے میں گوٹا لگانے پر لگایا ہوا ہے، ایک ہانڈی میں چمچہ ہلا رہی ہے، لڑکیاں پڑھ بھی رہی ہیں، گھر گر ہستی بھی سیکھ رہی ہیں، خالہ کے گھر کا کام بھی ہورہا ہے۔ یہ لو سبق ختم ہوا اور خالہ نے چھٹی کا اعلان کیا، بچیوں نے سیپارے اُٹھا ئے اور ایک آواز میں " خالہ اسلام علیکم کی صدا لگائی اور کھلکھلاتی ہوئی دروازے کی طرف چل پڑیں۔ اور اب یہ نیلی قمیص ،سفید شلوار اور سفید دوپٹوں میں سہیلیوں کے ساتھ اسکول جارہی ہے۔ 

اب یہ بڑی ہوتی جارہی ہے، اب کالج میں پہنچی اور ساتھ ہی اماں کے خفقان کا آغاز ہوگیا۔ یہ باہر باجے والے یہ کونسا جگر کو چیرتا ساز بجا رہے ہیں۔ ارے یہ شہنائی ہے۔ ایسی ہوتی ہے شہنائی جیسے کوئی سسکیوں میں رو رہا ہے۔ اور یہ بھیا ایک طرف کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔ وہ کیسے ملے گا اپنی بہن سے ۔ جس انگنا میں بہن کے سنگ کھیلا اب وہ وہاں اکیلا ہوگا۔ کس کو آکر بتائے گا کہ، آج اس نے میچ میں کیا کارنامے انجام دیے۔ کہاں کل تک شادی بیاہ کے گیت گھر میں گونج رہے تھے اور کہاں آج جب سب کچھ خیریت سے ہوگیا تو فکروں نے دماغ میں جھاڑیاں سی بنادی ہیں۔ لوگ تو اچھے ہیں، لیکن وہاں اپنا کون ہوگا ،جس سے دل کا حال کہے گی۔ اب وہ چاہے، سونے میں کھیلے، یا دکھ جھیلے، ہمارا اختیار تو ختم ہوا۔ اور ادھر دلہن کے دل میں عجب ہلچل مچی ہوئی ہے۔ 

پیا گھر سدھارنے کی خوشی، ایک جیو ن ساتھی، ایک نیا شخص اب زندگی کا حصہ ہوگا۔ کیسی عجیب سی بات ، جسے پہلے کبھی نہ دیکھا اب ہمدم وہمراز ہوگا۔ نئی دنیا، نئے لوگ نجانے کیا کچھ ، اور کیسا ہوگا۔ اور یہ میرے قدم کہاں اٹھ رہے ہیں ، یہ تو میرے گھر کی دہلیز ہے۔ پیچھے وہ گھر آنگن ہے جسے سجاتی بساتی رہی۔اماں ، ابا کا پیار، ان کی ڈانٹ ڈپٹ، بھیا سے وہ ساتھ کھیلنا اور لڑنا جھگڑنا۔ وہ میری سہیلیاں۔ میری دکھ سکھ کی سانجھی۔ اماں ابا کا خیال اب کون رکھے گا۔ اماں کو سوئی میں تاگا کون ڈال کر دے گا۔ نماز کو جاتے ہوئے ابا کو ان کا چشمہ اور لاٹھی کون دے گا۔ بھیا تو سارا دن باہر رہتا ہے۔ اور بھیا اب کس سے بات کرے گا۔ نئے گھر میں لوگ کیسے ہوں گے۔ ساس بھی کیا اماں جیسی ہوں گی۔

دولہے میاں کی بہنیں کیا میری سہیلیوں جیسی ہوں گی۔ وہ سب ہوں نہ ہوں، سسر ضرور ابا جیسے ہوں گے۔ انہوں نے آج جب میرے سر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے ابا کے ہاتھ کی نرمی محسوس ہوئی۔ انہوں نے بھی تو کچھ دن پہلے ایک بیٹی رخصت کی تھی۔ اماں ، ابا، چاچا، پھوپھو، خالہ، ماموں سب سے تو مل لی، سب نے گلے لگایا، رندھی ہوئی آواز میں دعائیں دیں، سر پر ہاتھ پھیرا۔ ابا میرے میاں سے مل رہے ہیں اور کان ہی کان میں کیا کہہ رہے ہیں، اب آنسو پوچھتے الگ ہوگئے۔ 

اب میرے سسر سے مل رہے ہیں، وہ انہیں تسلی دے رہے ہیں۔ بھیا۔۔۔کب سے قرآن میرے سر کے اوپر سایہ کئے کھڑا ہے۔ اچھا زرینہ، خدیجہ، صائمہ میری سہیلیوں۔ اللہ حافظ ۔ اچھا اماں ، ابا، بھیا ۔۔۔اب میرے ہاتھ پیلے ہوگئے، میں اب پرائی ہوئی۔ شہنائی کی گونج میں میری دہائی اب کوئی نہیں سن رہا۔ اب یہ گھر پرایا ہوا۔ اب میں چلی انجانے دیس۔