لاہور(جنگ نیوز/ایجنسیاں)چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پھر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے اور اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دارامریکا کی بجائے سابق آرمی چیف کو قراردیتے ہوئے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے‘سابق آرمی چیف کا فیورٹ شہباز شریف تھا.
شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ انھوں نے پہلے ہی کر لیا تھا‘ باجوہ کے شہباز کے ساتھ قریبی تعلقات تھے‘باجوہ اور شہباز شریف کے تعلقات کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کی راہ ہموار ہوئی‘ باجوہ چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت چوروں کی کرپشن معاف کرکے ان کے ساتھ مل کر کام کرے‘ آئین کسی جنرل کو بھی اختیار نہیں دیتا کہ قوم کے پیسے کی چوری معاف کر دے، سازش امریکہ سے امپورٹ نہیں ہوئی بلکہ پاکستان سے ایکسپورٹ ہوئی۔
اپنے ویڈیو خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم صحیح فیصلے نہیں کریں گے تو ملک تباہی کے راستے پر نکل جائے گا۔میرے پیچھے یہ ساڑھے تین سال لگے رہے، این آر او دو، بدقسمتی سے ان کوجنرل باجوہ نے این آر او دیا، ان کو صرف ایک شخص سے خوف ہے اور وہ عمران خان ہے.
قوم کے پیسے کی چوری کبھی معاف نہیں کر سکتا، ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت بدقسمتی سے عدلیہ طاقتور کے ساتھ کھڑی ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف چاہتے ہیں مجھے نااہل کروا دیں اور جیل میں ڈلوا دیں‘ جب یہ سمجھیں گے کہ گراؤنڈ تیار ہے تو الیکشن کرا دیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا آئین کی حفاظت کے لیے پوری قوم عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے‘انہوںنے جسٹس سجاد علی کو اپنی چوری بچانے کے لیے ہٹایا‘یہ پاکستان کی عدلیہ کو بلیک میل کررہے ہیں۔
90دن کے بعد نگران حکومتیں غیر آئینی ہو جائیں گی‘عمران خان کا کہنا تھا سابق آرمی چیف نے جو باتیں کیں اس پر حیران ہوں، سابق آرمی چیف نے کہا کہ ملک کو عمران خان سے بچانا ہے‘جنرل باجوہ نے تسلیم کر لیا کہ نیب بھی ان کے کنٹرول میں تھا، ایک شخص کے پاس ساری پاور تھی اور کوئی ان پر تنقید نہیں کرسکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ میری حکومت گرائی، حکومت کے کام اس وقت ہوتے تھے جب جنرل باجوہ کہتے تھے ٹھیک ہے، تنقید کا نشانہ میں تھا اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔۔دریں اثناءامریکی نشریاتی ادارےکوانٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے‘باجوہ اور شہباز شریف کے تعلقات کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کی راہ ہموار ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصارصرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے‘ان کی حکومت اور جنرل باجوہ کے مثبت تعلقات سے ان کی حکومت کو پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی.
باجوہ اور ان کی حکومت کے مسائل تب پیدا ہوئے جب باجوہ نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی۔عمران خان نے کہا کہ عوام کی منتخب حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ اختیارات بھی ہونے چاہئیں، اختیار آرمی چیف کے پاس ہو اور ذمہ داری وزیراعظم کے پاس تو نظام نہیں چل سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے، پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکا کےساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں۔