دسمبر 2022 میں انگلینڈ ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے 25 لاکھ سے زیادہ شہریوں کو متاثر کرنے والے ضوابط غیر قانونی ہیں، کسی پری سیٹلمنٹ والے کو برطانیہ سے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ اس فیصلے کو حکومت کی طرف سے چیلنج نہیں کیا جائے گا۔
ہوم آفس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گا، باوجود اس کے کہ پہلے یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ وہ ہائیکورٹ کے جج مسٹر لین کی جانب سے دیے گئے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا اور اپیل دائر کرے گا۔
مگر اب ہوم آفس کے زیر اثر کام کرنے والے ادارے ”انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ اتھارٹی“ جو پری سیٹلمنٹ حاصل کرنے والوں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے کے مسٹر رابرٹ پامر کے سی نے عدالت کو بتایا کہ برطانیہ میں رہنے والے یورپی یونین کے لاکھوں شہریوں کو اپنے حقوق کھونے کا خطرہ لاحق ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ ''غیر قانونی طور پر رہائش پذیر'' جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 2.6 ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں، وہ لوگ جو 2020 میں منتقلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے برطانیہ میں مقیم ہیں جنہیں پہلے سے آباد حیثیت دی گئی تھی۔ ہوم آفس کے قوانین کے تحت، وہ لوگ برطانیہ میں قانونی طور پر رہنے کے اپنے حق سے محروم ہو جائیں گے، اگر وہ پانچ سال کے اندر مستقل رہائش کی درخواست نہیں دیتے۔
مسٹر پالمر نے مزید کہا کہ وہ ''برطانیہ میں رہنے، کام کرنے اور سوشل سیکیورٹی سپورٹ اور رہائش تک رسائی کے حق کو متاثر کرنے والے کافی سنگین نتائج کا سامنا کریں گے اور انہیں حراست میں لینے اور ہٹانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
ای یو پری سیٹلمنٹ اسٹیٹس کے بہت سے شہریوں کو اپنے رہائش کے حق سے محروم ہونے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اگر وہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد اسیٹم اسٹیٹس کے لیے مزید درخواست نہیں دیتے۔
دسمبر 2022 میں مسٹر جسٹس لین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یورپی یونین کے شہریوں کی امیگریشن اسٹیٹس کو طے کرنے کے لیے ہوم آفس کی جانب سے قائم کی گئی یورپی یونین سیٹلمنٹ اسکیم ای یو ایس ایچ کا حصہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان انخلا کے معاہدے کی غلط تشریح پر مبنی تھا۔
ہوم آفس نے کہا کہ مسٹر جسٹس لین کا یورپی یونین کے لاکھوں افراد کے حق میں فیصلہ اب قانون بن چکا ہے اور وہ اس پر ''جتنا جلد ممکن ہو'' عمل درآمد کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ہوم آفس کے ایک ترجمان نے کہا، ''پہلے سے سیٹل اسٹیٹس کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اہل ہوتے ہی سیٹل اسٹیٹس کے لیے درخواست دیں، تاکہ وہ برطانیہ میں اپنے مستقل رہائش کے حق کا محفوظ ثبوت حاصل کر سکیں۔
امیگریشن کے وزیر رابرٹ جینرک نے کہا کہ یہ اسکیم ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ہم نے برطانیہ میں یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں کو اسٹیٹس حاصل کرنے کے لیے سپورٹ کیا تاکہ وہ اس بات کی یقین دہانی کر سکیں کہ وہ یہاں کے مستقل رہائشی ہیں۔
یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے پری سیٹلمنٹ حاصل کرنے والوں کے لیے برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کا ایک محدود حق جس کی میعاد پانچ سال ہے اور اگر یہ مدت ختم ہو جائے تو مکمل سیٹل اسٹیٹس کے لیے دوبارہ درخواست دینا بہت ضروری ہوگا ورنہ درخواست نہ دینے والوں کو غیر قانونی رہائشی ہی تصور کیا جائے گا اور انہیں کسی وقت بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ اتھارٹی کے مسٹر پالمر نے کہا کہ وہ برطانیہ میں رہنے، کام کرنے اور سوشل سیکورٹی سپورٹ اور رہائش تک رسائی کے حق کو متاثر کرنے والے کافی سنگین نتائج کا سامنا کریں گے اور انہیں حراست میں لینے اور برطانیہ سے نکالنے کے مجاز ہوں گے۔ لیکن اس کے جواب میں برطانیہ ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس لین نے کہا کہ اگر ہوم آفس کی طرف سے کی گئی اس قانون کی تشریح درست ہے، تو ''لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو انتہائی سنگین غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے'' جس میں ممکنہ ملک بدری بھی شامل ہے۔ انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہوم آفس نے اس قانون کی غلط تشریح کی ہے۔
انہوں نے ہوم سیکریٹری سے کہا کہ وہ یورپی یونین کے شہریوں کے رہائشی حقوق کو محفوظ بنائیں، ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس لین کے فیصلے کے جواب میں ہوم آفس سپریم کورٹ جانا چاہتا تھا لیکن اب ہوم آفس کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ مسٹر جسٹس لین کے فیصلے کی پاسداری کریں گے اور سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کریں گے اور یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے پری سیٹلمنٹ شدہ افراد کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔
ہوم آفس برطانیہ کے اس فیصلے کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا ہے اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پری سیٹلمنٹ والوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور ہر دن اپنے اوپر لٹکتی ملک بدری کی تلوار کے ہٹ جانے پر اظہار مسرت کیا ہے۔