بلوچستان میں قوم پرست سیاست کی تاریخ جتنی پرانی اتنی ہی مضبوط رہی ہے، بلوچستان میں اگر انتخابی حوالے سے بھی 1970 کی دہائی میں بلوچستان کو صوبے یکا درجہ ملنے اور صوبے میں پہلے انتخابات سے لے کر اب تک ہونے والے آخری عام انتخابات تک قوم پرست جماعتوں نے مختلف ادوار میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، دراصل بلوچستان میں ووٹ بینک شروع دن سے تین بڑئے حصوں میں تقسیم ہے جس ایک حصہ بلوچ، پشتون قوم پرستوں دوسرا مذہبی ووٹ بینک اور تیسرا الیکٹیبلز کا رہا ہے۔
انتخابی سیاست سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہاں قوم پرست سیاست کی ایک پرانی تاریخ ہے انگریز کے دور میں جب سیاست پر قدغنیں تھیں تب بھی بلوچستان میں قوم پرست سیاست فعال نظر آتی ہے اور اس سلسلے میں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی جدوجہد بھی نمایاں نظر آتی ہے اس کی ایک اہم اور بڑی مثال ماضی میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی ہے، 1970 کی دہائی میں بلوچستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے بعد پہلی حکومت بنانے کا اعزاز بھی نیپ کو حاصل ہے تاہم سردار عطا اللہ مینگل کی صرف چند ماہ کی حکومت توڑ دی گئی جس کے بعد بلوچستان میں جو حالات پیدا ہوئے وہ پوشیدہ نہیں، نیپ حکومت کے خاتمے اور نیپ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نیپ کی اس دور کی قیادت مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئی یا ان کی قیادت کرتی رہی، نیپ میں بلوچستان کے بڑئے بلوچ اور پشتون سیاسی رہنما شامل رہے۔
نیپ کے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو ایک جماعت کے پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوششیں ہوئیں اور مختلف جماعتوں کی جانب سے ایسے دعوئے بھی کیے گئے تاہم بلوچستان میں پھر نیپ جیسی جماعت نہ بن سکی، تاہم ماضی میں ایسی کوشش ہوتی رہیں کہ قوم پرست خاص طور پر بلوچ قوم پرست رہنما ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں، 1988 میں نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان نیشنل موومنٹ کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں گئے اور کامیابی کے بعد حکومت بنائی۔
تاہم 1990 میں ہونے والے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے نام سے قائم کی، جس کے بعد 1996میں ممتاز بلوچ بزرگ قوم پرست سیاست دان سردار عطا اللہ خان مینگل کی قیادت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے 1997کے انتخابات میں بلوچستان سے کامیابی حاصل کی اور سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی مخلوط صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی 1998ء میں اندرونی اختلافات کا شکار ہوکر تقسیم ہوگئی اور میر اسرار اللہ زہری کی قیادت میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے نام سے نئی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا گزشتہ 25 سال کے دوران جماعت کی صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی نمائندگی رہی تاہم 25 سال کے بعد بی این پی (عوامی) بھی اختلافات کا شکار ہوگئی۔
پارٹی میں یہ اختلافات پارٹی کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل میر اسد اللہ بلوچ کے درمیان پیدا ہوئے ہیں جس کی وجہ بی این پی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد ہے، بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کی شرط سے قبل بھی انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی روایت رہی ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے کونسل سیشن کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو دو سے تین روز تک جاری رہتا ہے جن میں پارٹی کے گزشتہ دور کی کارکردگی سمیت مستقبل کے لائحہ عمل سمیت پارٹی کے انتخابات کرائے جانے کی روایت ہے، قوم پرست جماعتوں میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کرائے جاتے رہے ہیں۔
بی این پی (عوامی) کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے 15 فروری کی تاریخ سامنے آئی تھی تاہم پارٹی سربراہ میر اسرار اللہ زہری کی صدارت میں 13 فوری کو کراچی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے اجلاس طلب کیا گیا، جس پر پارٹی کے سیکرٹری جنرل میر اسد اللہ بلوچ کا موقف سامنے آیا کہ جب 15 فروری کی تاریخ مقرر کردی گئی تھی تو اس سے دو روز قبل یعنی 13 فروری کو اجلاس طلب کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی جس پر میر اسرار اللہ زہری نے کراچی میں میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دباو تھا، اس سلسلے میں 12 سے 20 فروری کے درمیان کسی تاریخ کو اجلاس طلب کرنے کی تجویز تھی تاہم پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے انہیں اعتماد میں لیے بغیر 15 فروری کی تاریخ کا اعلان کردیا۔
دوسری جانب میر اسد اللہ بلوچ کی قیادت میں پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس 15 فروری کو کراچی میں ہوا جس کے بعد جاری کردہ بیان کے مطابق سنٹرل کمیٹی کے ارکان کی بڑی تعداد نے اجلاس میں شرکت کی۔ یاد رہے کہ میر اسرار زہری چند ماہ قبل بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کے لئے بھی سرگرم رہے اور اس سلسلے میں بلوچ قوم پرست سیاسی رہنماوں سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) قریب 25 سال صوبے کی سیاست میں متحرک رہی ہے پارٹی کو 2018کے انتخابات میں بڑی کامیابی نہیں ملی پارٹی ٹکٹ پر دو ارکان میر اسد اللہ بلوچ اور سید احسان شاہ کامیاب ہوئے جس کے بعد پارٹی کو خواتین کی ایک مخصوص نشست بھی ملی، تاہم انتخابات کے بعد حکومت سازی کے موقع پر سید احسان شاہ نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرکے ان کی حمایت کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد ان کے اور میر اسد اللہ بلوچ کے درمیان دوریاں نظر آئیں اور میر اسد اللہ بلوچ کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیر شمولیت کے بعد سید احسان شاہ نے بھی پارٹی سے راہیں الگ کرتے ہوئے اپنی جماعت کے قیام کا اعلان کردیا، دوسری جانب بی این پی (عوامی) سے تعلق رکھنے والے دو سابق صوبائی وزیر بھی اس دوران اپنی جماعت سے راہیں الگ کرچکے ہیں۔
پہلے سابق صوبائی وزیر میر ظفر اللہ زہری نے جمعیت علما اسلام میں شمولیت اختیار کی تو مکران سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر میر اصغر رند بھی اپنی جماعت سے تعلق توڑتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے جس سے پارٹی کو کافی دھچکہ لگا تھا تاہم اب پارٹی کے دو اہم ترین عہدیداروں اور دو مضبوط ترین رہنماوں کی دوریوں کے باعث بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اندرونی اختلافات کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے، یاد رہے کہ چند ماہ قبل بلوچستان کی اہم اور مضبوط پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اس صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔2004میں نواب اکبر خان بگٹی نے بھی چار جماعتی بلوچ اتحاد کے قیام کے لئے کوششیں کیں ان کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔