• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز نے اضافی نوٹس کے ذریعے اعترضات اٹھا کر بہادری دکھائی، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےانٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی سینئر لیگل ایڈوائزر فار ساؤتھ ایشیا اور ماہر قانون ریما عمر نے کہا ہےکہ ججز نے اپنے اضافی نوٹس کے ذریعے اعتراضات اٹھا کر بہادری دکھائی ہے، اس کے نتائج بھی ہوسکتے ہیں ، ہوسکتاہےکہ آئندہ اہم بینچز میں اُن کی شمولیت نہ ہو۔ آزادعدلیہ کاایک اہم پہلو یہ بھی ہےکہ وہ اندرونی مداخلت اوراثرورسوخ سے بھی آزاد ہونی چاہیے۔

ججز کے اضافی نوٹس سےچیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات پرسوال اٹھ رہے ہیں۔عالمی معیار بالکل واضح ہےکہ بینچ بنانے کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں،اسلیے صوابدیدی اختیارفرد واحد کو نہیں دیا جاسکتا۔

کونسا کیس سننا ہے ، کب سنناہے، کتنے ججز نے سننا ہےا ور وہ ججز کون ہونگے یہ سب چیف جسٹس کا اختیار ہے۔اور یہ کوئی آئینی اختیارنہیں ہے، یہ سپریم کورٹ کے رولز کے تحت چیف جسٹس کو دیئے گئے ہیں۔

 قانونی سازی کی ذریعے یہ اختیارات تبدیل کیے جاسکتےہیں۔اہم آئینی سوالات کے لیے فُل کورٹ بنناچاہیے اوریہ کیس توویسے ہی متنازع ہوگیاتھااس کےلیے توفُل کورٹ بناناچاہیےتھا۔ ماہر قانون ریما عمر نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس بنچ بنانے کے بعد اسے تبدیل کرنے کا بھی اختیار ہے

 وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ کا کہناتھا کہ دوصوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر فل کورٹ بن جاتا تو حرج نہیں تھا،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں اہم سماعت ہوئی

سماعت سے پہلے بنچ کی تشکیل اور ججوں کے اعتراضات کے حوالے سے ڈرامائی پیشرفت سامنے آئی، ماہر قانون ریما عمر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کا اپنے اعتراضات اضافی نوٹ کے ذریعہ اٹھانا بہادری کی بات ہے، ممکن ہے اس اقدام کے نتیجے میں انہیں آئندہ اہم بنچوں میں شامل نہیں کیا جائے، عدلیہ کی آزادی کا اہم پہلو اندرونی مداخلت سے آزادی بھی ہے

 عدلیہ پر بیرونی دباؤ کے ساتھ اندرونی دباؤ بھی نہیں ہونا چاہئے، ججوں کے اعتراضات سے چیف جسٹس کے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کے طریقے پر سوال اٹھ رہے ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کس طرح لیے جاتے ہیں یہ ان کا ذاتی نہیں ادارے کا معاملہ ہے۔

 ریما عمر کا کہنا تھا کہ امریکا سمیت کئی ممالک میں سپریم کورٹ کے تمام ججز مل کر فیصلے کرتے ہیں وہاں بنچز نہیں بنتے ہیں، فل کورٹ کیس سن رہی ہو تو یہ ایشو نہیں رہتا کہ چیف جسٹس کون سا کیس بناتے ہیں کون سا کیس نہیں بناتے، سپریم کورٹ کے 17ججز ہوتے ہیں لیکن بنچز عموماً تین یا پانچ ججوں کے بنتے ہیں، پچھلے کچھ برسوں سے اہم سیاسی نوعیت کے کیس مخصوص تین سے پانچ ججز ہی سنتے ہیں، اس لیے ان بنچوں پر بار بار اعتراضات ہوتے ہیں، چھوٹے بنچوں میں فیصلے ہونے کی وجہ سے عدالتی فیصلوں کی مثال ویلیو نہیں رہ گئی ہے۔ ریما عمر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ کون سا کیس کب سننا ہے اور کن ججوں نے سننا ہے ، یہ آئینی اختیار نہیں بلکہ سپریم کورٹ رولز کے تحت چیف جسٹس کے پاس یہ اختیارات ہیں

 چیف جسٹس کے پاس بنچ بنانے کے بعد اسے تبدیل کرنے کا بھی اختیار ہے، جسٹس منصور علی شاہ کے نزدیک چیف جسٹس بنچ بناسکتے ہیں لیکن بنچ بننے کے بعد اس میں ازخود کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے، اب کیا پارلیمنٹ کو کوئی قانون سازی کرنا پڑے گی شاید یہی حل بچ گیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا کہ مریم نواز نے بیانیہ دیا ہے کہ پہلے عدل ہو پھر الیکشن ہو، مریم نواز نے تقریر میں جو کچھ بھی کہا اس بیانیے کا ایک پس منظر ہے، 2018ء میں جس طرح ہمارے قائد کو نااہل کیا گیا، ہماری پارٹی کے مختلف حصے کیے گئے اس کے باوجود پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی ن لیگ تھی۔

عطاء تارڑ کا کہناتھا کہ دوصوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے معاملہ پر فل کورٹ بن جاتا تو حرج نہیں تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بنچ سے الگ نہیں کیا بلکہ ازخود نوٹس پر سوال اٹھایا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی سے اتفاق کیا تو دونوں کو بنچ میں نہیں رکھا گیا، عدالت کو تمام چیزیں دیکھنا ہوں گی کیا وزارت خزانہ کے پاس الیکشن کیلئے پیسے ہیں؟، کیا ممکن ہے کہ دو صوبوں میں پرانی مردم شماری پر الیکشن ہوجائے۔

اہم خبریں سے مزید