کروٹون، اٹلی (اے ایف پی)اٹلی کے پانیوں میں تباہ ہونے والی کشتی ساحل پر پہنچنے ہی والی تھی کہ طوفانی لہروں کے منجھدار میں پھنسنے کے بعد تباہ ہوگئی.
حادثے سے کچھ ہی دیر قبل کشتی میں سوار افراد اپنے پیاروں کو فون کرکے ساحل پر اپنے پہنچنے سے آگاہ کرنے میں مصروف تھے، کئی افراد نے حادثے سے چند لمحے قبل اپنے پیاروں کیساتھ پیغامات کا تبادلہ بھی کیا .
کشتی میں پاکستان ، افغانستان اور ایران کے کئی خاندان بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے معصوم بچوں کو بھی ساتھ لے آئے تھے، حادثے میں جاں بحق ہونے والے 67افراد میں 14بچے بھی شامل ہیں،کئی خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، کئی ماووں کی گود اجڑ گئی ، کئی گھروں کے جوان چراغ گل ہوگئے ، اتوار کو علی الصبح ہونیوالے المناک حادثے کے بعد مقامی افراد نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا جن میں ایک ماہی گیر ونسینزو لیسیانو بھی شامل ہیں جنہیں ان کے ایک دوست نے مدد کیلئے بلایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے اپنے موبائل فون کی لائٹ آن کی تو مجھے ساحل پر ہر جگہ میتیں اور بچے نظر آئے جو ایک دوسرے پر پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیگر افراد کیساتھ مل کر لوگوں کو پانی سے نکالا جبکہ اس دوران زندہ بچ جانے والے افراد اپنے پیاروں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر جگہ چیخ وپکار تھی، مائیں ایک دوسرے کے ہاتھوں سے بچوں کو یہ سمجھ کر چھین رہی تھیں کہ شائد وہ ان کے بچے ہوں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے مطابق اٹلی کے پانیوں میں تباہ ہونیوالی کشتی کے حادثے میں زندہ بچ جانیوالے افراد اپنے پیاروں کی میتوں پر روتے رہے، کچھ افراد دیگر ممالک سے بھی کروٹون پہنچے جنہوں نے مرنیوالے 67افراد میں سے کچھ کے رشتہ دار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اتوار کی صبح پیش آنے والے المناک واقعے کے بعد حالیہ ملنے والی لاش ایک پانچ سالہ بچے کی ہے، اس سانحے میں ایک درجن سے زائد بچے بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مقامی افراد نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا جن میں ایک ماہی گیر ونسینزو لیسیانو بھی شامل ہیں جنہیں ان کے ایک دوست نے مدد کیلئے بلایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے اپنے موبائل فون کی لائٹ آن کی تو مجھے ساحل پر ہر جگہ میتیں اور بچے نظر آئے جو ایک دوسرے پر پڑے ہوئے تھے۔
انہوں نے دیگر افراد کیساتھ مل کر لوگوں کو پانی سے نکالا جبکہ اس دوران زندہ بچ جانے والے افراد اپنے پیاروں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر جگہ چیخ وپکار تھی، مائیں ایک دوسرے کے ہاتھوں سے بچوں کو یہ سمجھ کر چھین رہی تھیں کہ شائد وہ ان کے بچے ہوں۔