سابق جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی کنگز پارٹی یعنی ق لیگ بھی تحریک انصاف کو پیاری ہو گئی۔ باقاعدہ تصدیق پرویز الٰہی نے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت کرکے کی، ذرائع نے بتایا ہے کہ گھریلو اور سیاسی خلیج بڑھنے اور چوہدری شجاعت حسین کیطرف سے صاف جواب ملنے کے بعد ہی پرویز الٰہی نے یہ قدم اٹھایا، جیسے ہی پرویز الٰہی نے یہ اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر عمران خان کی وہ تقاریر ایک بار پھر وائرل ہوگئیں جس میں انہوں نے پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا، جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد کھانا کھانے کے چکر میں دو ٹائم زمان پارک حاضری دینے والے غائب ہوچکے ہیں۔
جس کے بعد زمان پارک کے باہر لگا میلہ عملی طور پر اجڑ گیا ہے اور کیمپ اکھاڑ دیئے گئے ہیں، جس کے بعد زمان پارک کے رہائشیوں نے سکون کا سانس لیا ہے، چند سو گرفتاریاں ہونے کے بعد جیل بھرو تحریک مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے دیگر جماعتیں مطالبہ کررہی ہیں کہ تحریک انصاف کو اب ڈوب مرو تحریک شروع کرنی چاہیئے، گرفتاری کے بعد شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو دوران سماعت عدالت میں قہقہے لگتے رہے۔
اسد عمر سمیت دیگران کی گرفتاری کے بعد عدالت سے رجوع پر سیاسی رہنماؤں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تھے ٹکر کے لوگ جنھوں نے انقلاب لانا تھا ایک دن کی گرفتاری کے بعد ہی یہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہوگئے ہیں، یہ پہلی ہی رات کوٹھ لکھپت جیل میں ایک دوسرے کو ٹکریں مار مار کر لڑے کہ تمہاری وجہ سے مجھے جیل جانا پڑا، اب انہیں الگ الگ جیلوں میں بھجوا دیا گیا ہے، ملک بھر میں پاکستان سیاسی لیگ کا دنگل زور شور سے جاری ہے، وفاقی حکومت جانتی ہے کہ آئندہ بھی مرکزی حکومت پانے کی چابی پنجاب ہی ہے۔
ہر ٹیم چاہتی ہے کہ نہ صرف غلبہ پائے بلکہ مخالف کو چاروں شانے چت کردے، جسکی وجہ سے نفرت بھری سیاسی کشمکش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، بڑھتی کشمکش سے سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہورہا ہے جس کا اثر سٹاک ایکسچینج اور ڈالر کی قیمت پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے، آئی ایم ایف معاہدوں کیوجہ سے پیدا شدہ مہنگائی بلا روک ٹوک جاری ہے،بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بلوں سے عوام سخت اذیت میں مبتلا ہیں، مشکل معاشی حالات نے سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک پر کاری ضرب لگائی ہے، ان عوامل کی وجہ سے ن لیگی حلقے اس امر پر پچھتا رہے ہیں کہ انھوں نے کیوں حکومت میں آنا قبول کیا؟ سیاسی حلقے اس پر نالاں ہیں کہ طاقتور حلقوں کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کا وعدہ سبز باغ ثابت ہوا ہے۔
لیگی حلقے اب بھی برملا کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کا ویژن سو فیصد درست ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی شرط پر عبوری حکومت کا حصہ بننا گھاٹے کا سودا ہی ہوتا ہے اور موجودہ شہباز شریف حکومت واقعی گھاٹے کا بڑا سودا ہی ثابت ہوئی ہے، سابقہ حکومت کی طرف سے بین الاقوامی معاہدے پورے نہ کرنیکی وجہ سے موجودہ وفاقی حکومت گرانی کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کے شہباز شریف کے دعوے پورے نہیں ہوپارہے، اگرچہ شہباز حکومت معاشی میدان میں دیوالیہ نہ ہونے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن دیگر ن لیگی قیادت کا کہنا ہے کہ ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہے، مخالفین دعویٰ کررہے ہیں کہ شہباز حکومت کی پرواز محدود ہوتی جارہی ہے، مخالفین کی تنقید اپنی جگہ لیکن شہباز شریف اور اسحاق ڈار سیاست بچانے کی بجائے ریاست بچائو منصوبے پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔
ملک بھر کی بار کونسلوں نے الیکشن بارے فیصلہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے فل بینچ کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے، مریم نواز اور خواجہ آصف کی جانب سے بینچ فکسنگ اور حکومت کیخلاف کیسوں میں مخصوص ججوں کی شمولیت پر تنقید نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان نے بگڑی شہزادی پکار کر مریم نواز کو مزید مشتعل کردیا ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد کی مریم نواز پر جارحانہ جملے بازی نے سیاسی محاذ مزید گرم کردیا ہے، جوابی وار کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو اوقات میں رہنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ سابق رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ نے بھی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر یاسمین راشد پر تنقید شروع کردی ہے۔