کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر)ملک میں جاری پہلی ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری شروع ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا لیکن ضلع کوئٹہ میں اس اہم قومی فرض کے حوالے سے انتظامی معاملات درست نہ ہوسکے ۔محکمہ شماریات اورضلعی انتظامیہ کوئٹہ کی نااہلی جبکہ محکمہ تعلیم کی اپنے ہی اساتذہ سے لاتعلق رہنے جیسے رویے نے اساتذہ کو پریشان کردیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے حقائق اور صورتحال جانے بغیر بیانات نے بھی شمارکنندگان کو مایوس کردیا ہے۔تفصیلا ت کےمطابق ملک کی آبادی کو گننے اورانسانی وسائل کا صحیح تخمینہ لگانے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے خانہ و مردم شماری کسی بھی ملک کے لیے ایک اہم مرحلہ اور قومی فرض ہوتا ہے ۔پاکستان میں بھی گزشتہ ہفتے سے ساتویں ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری جاری ہے ۔جس کا آغاز یکم مارچ کو ہوا تھا ۔لیکن ضلع کوئٹہ میں اس حوالے سے انتظامیہ کی غفلت اور انتظامات ناکافی ہونے کا پول پہلے دن ہی کھل گیاتھا۔شروع کے دو دن یکم اور دو مارچ کوتو کوئٹہ کے بیشتر علاقوں میں سیکورٹی کی عدم فراہمی اور ٹیبلٹس لاگ ان نہ ہونے کے باعث اس کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکا ۔حالانکہ 3مارچ کو ہرشمارکنندہ کو اپنی پہلی بلاک کی خانہ شماری (لسٹنگ ) مکمل کرنے اور 5مارچ سے اسی بلاک کی مردم شماری کا آغاز کرنا تھا لیکن انتظامات نامکمل ہونے کے باعث اب سارا شیڈول اور یہ اہم قومی مہم کوئٹہ میں متاثر ہورہی ہے ۔مختلف علاقوں میں شمارکنندہ کے طورپر فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی جانب سے شکایات موصول ہورہی ہیں ۔ان اساتذہ کرام نے کہاہے کہ ہم نے جنوری کے شدید سرد موسم میں بے سروسامانی کے عالم میں تربیت حاصل کی ۔تربیت کے دوران ہمیں جو پروگرام دیا گیا تھا اس کے مطابق ہر شمارہ کنندہ کو اڑھائی سو(250)سے (280)گھروں پر مشتمل ایک بلاک دینے کی بات کی گئی تھی جسے وہ 15دن کے اندر مکمل کرنے کا پابند تھا۔جبکہ ہر شمار کنندہ کو دو دو بلاک دیے جانے تھے ۔پہلے 15دن ایک بلاک جبکہ دوسرے 15دن دوسرے بلاک کے لیے اور یہ سارا کام ایک ماہ میںیکم مارچ 2023سے یکم اپریل2023 کو مکمل ہوجانا تھا۔لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوسکا اور سارا شیڈول درہم برہم ہوگیا۔شمارکنندہ گان(اساتذہ )کےلیے سب سے بڑی پریشانی بڑے بڑ ے بلاک بنے ہوئے ہیں ۔اڑھائی سو یا 2سو80کی بجائے اکثر شمارکنندگان (اساتذہ )کو 7سو سے ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ گھروں پر مشتمل ایک بلاک دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ہر استاد کے لیے مختص دو دو بلا ک میں گھروں کی تعداد 15سو سے 2ہزار کو پہنچ رہی ہے ایسے میں وہ ایک بلاک 15دن تو کیا ایک اگلے ایک ماہ میں بھی مکمل نہیں کرسکے گا۔بعض شمارکنندگان نے کہاہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بلاکوں کی تقسیم میں بھی اقرباء پروری ،سفارش یا منظور نظر افراد کو سہولت دینے والا کلچر کام کرگیا ہے ۔جیسے بے چراغ بلاکوں کی تقسیم یا پھر 2سو سےاڑھائی سو گھروں پر مشتمل بلاک اپنے منظور نظر شمارکنندگان کو دینا اسی طرح شمارکنندگان(اساتذہ کرام) کو دور دراز اور مشکل علاقوںمیں تعینات کرنا باعث افسو س اور اساتذہ کےلیے حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے ۔بعض شمارکنندگان نے کہاہے فیلڈمیں موجود اساتذہ کرام کو سنا ہی نہیں جارہا۔انہوں نے کہاکہ ایک طرف ہمیں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ شماریات نے مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے جبکہ دوسری جانب محکمہ تعلیم بھی مردم شماری و خانہ شماری کا فرض انجام دینے والے اساتذہ سے لاتعلق ہوگیا ہے جبکہ دوسری جانب بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات بھی اساتذہ کےلیے حوصلہ شکنی کا باعث بن رہے ہیں ۔انہوںنے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام بالخصوص ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کوئٹہ شبیر لانگواور حمید لانگو سے درخواست کی ہے کہ وہ اساتذہ کے سرپرست ہیں لہذا اس مشکل صورتحال میں اساتذہ کی آواز سنیں۔ ان کی مشکلات کا نوٹس لیں اور متعلقہ اعلیٰ حکام سے اس حوالے رابط کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔