• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرا احمد

بعض اوقات نوجوان جب اپنے کیرئیر کے آغاز میں کسی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، تو اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں یا بہن بھائیوں کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے دوست احباب جس شعبے میں اپنا کیرئیر بنا رہے ہیں وہ بھی اسی شعبے میں جائیں گے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا کا ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے‘‘، ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے تمام انسانوں کو ایک جیسا بنایا ہے۔ 

تمام انسانوں کے اعضاء ایک جیسے ہونے کے باوجود ہر انسان دوسرے سے مختلف و منفرد بھی ہے، یہ فرق ان کے قد، وزن، رنگ، خدوخال کے ساتھ ساتھ ان کی عادتوں، رویوں، صلاحیتوں اور قابلیتوں وغیرہ میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس فرق کو ماہرین نفسیات ’’انفرادی اختلافات‘‘ گردانتے ہیں۔ یہ اختلافات ذہنی، جسمانی، جذباتی، معاشرتی بھی ہوتے ہیں اور کچھ لوگ مخصوص رجحانات اور صلاحیتوں کے حوالے سے بھی دوسروں سے مختلف اور منفرد ہوتے ہیں پھر ان ہی کی بہ دولت بعض افراد دنیا میں غیرمعمولی کارنامے سرانجام دیتے ہیں اور بعض معمول کے مطابق زندگی بسر کرکے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ 

تاریخ کے اوراق ایسی ان گنت شخصیات کے بے مثال کارناموں سے بھرے پڑے ہیں،جو اپنی صلاحیتوں قابلیتوں کے بل پر اُفق کی بلندیوں پر پہنچے ا اور دنیا میں معتبر اور محترم مانے گئے۔ اسی طرح دنیا کے قیام سے آج تک ایسے بے شمار انسان پیدا ہوئے، جو کوئی قابل قدر یا قابل ستائش کام سر انجام نہ دے سکے ایک گم نام زندگی ان کا مقدر بنی۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ قدرت نے کچھ مخصوص انسانوں کو صلاحیتوں سے نوازا ہے اور کچھ کو محروم رکھا ہے۔ 

ہر انسان صلاحیتوں سے مالا مال ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ بہت سے انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں اور بہت سے تا عمر اپنی کھوج نہیں کرپاتے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ میں صلاحیت تو موجود ہے لیکن جب تک آپ اس کی صحیح انداز میں نشوونما نہیں کریں گے اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کرسکتے۔ بہت سےنوجوانوں کو اپنے اندر چھپی اس گرانقدر صلاحیت کا علم ہی نہیں ہوتا اور کچھ علم ہوجانے پر بھی حالات کے جبر کے باعث اس کی نشوونما نہیں کرپاتے یا پھر حوصلے کی کمی ان کے قدموں کو جکڑ لیتی ہے۔ 

اس طرح وہ کامیابی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس دھن کے پکے اور حالات کے جبر کو خاطر میں نہ لانے والے نوجوان راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ثابت قدمی کے ساتھ اپنی صلاحیت کی نشوونما کرکے کامیابی کی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ اس راہ میں صلاحیت ان کی سب سے بڑی طاقت، سب سے بڑی امنگ بن جاتی ہے۔ دنیا میں جس نے بھی کوئی قابل قدر کام کیا اس میں جتنا دخل اس کی صلاحیتوں، محنت، کوشش، جدوجہد، شوق اور لگن کو حاصل رہا اس سے زیادہ اس کی ’’خود شناسی‘‘ نے اسے مدد فراہم کی۔ 

انسان کا اپنی صلاحیتوں، رجحانات، جذبات، شوق اور قابلیت کو جاننا ’’خود شناسی‘‘ یا ’’خود آگہی‘‘ کہلاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے سر بستہ رازوں میں سب سے پیچیدہ راز انسان کی ذات ہے۔ اور اس کی دریافت کرنا، دنیا کا مشکل ترین کام، یہ دریافت اس وقت تک نہیں کی جاسکتی ، جب تک کہ انسان اس کی خواہش ، محنت ، کوشش نہ کرلے، جدوجہد کا عادی نہ ہو، راستے نہ تلاش کرلے، ٹھوکریں نہ کھائے، گرے سنبھلے، پھر کہیں جاکر اسے اپنی منزل ملتی ہے۔ اس لئے اکابرین خودشناسی کے عمل کو ایک سفر سے تشبیہہ دیتے ہیں، ہر انسان کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کسی اور کی اندھی تقلید کرنے کے بہ جائے اپنا راستہ خود بنانا چاہیے۔

دنیا کی تاریخ کی بات کی جائے ،تو جس نے بھی کوئی کارنامہ سرانجام دیا ، انقلاب پیدا کرنے کی ٹھانی تو سب سے پہلے اس نے خود سے شناسائی حاصل کی، خود کو تسخیر کیا۔ اپنے آپ کو دریافت کیا، کیوں کہ انسان جب تک خود کو دریافت نہیں کرتا تو وہ کچھ بھی دریافت نہیں کرسکتا۔ خود شناسی کا یہ عمل ہمیشہ غور و فکر سے شروع ہوتا ہے۔ انسان جتنا غور و غوض کرتا ہے وہ قدرت کے اتنا ہی قریب ہوتا جاتا ہے۔ 

باہر کی دنیا پر غور کرتے کرتے ایک وقت آتا ہے ،جب وہ اپنے اندر کی دنیا کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اپنی ذات، اپنی شخصیت، اپنی حیثیت پر غور کرنا خود شناسی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جاننا کہ میں کیا ہوں؟ میں کون ہوں؟ مجھے قدرت نے کن کن صفات و کمالات سے نوازا ہے؟ میں کیا کرسکتا ہوں؟ اور کون سے کام میرے لئے دشوار ہیں؟ میں کس جگہ بہتر پرفارمنس دکھا سکتا ہوں؟ کس جگہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہوں؟ کن کاموں سے مجھے بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اور کون سے کام میرے لئے نقصان کا باعث ہیں؟ میں کتنا منفی ہوں؟ کتنا مثبت ہوں؟ میری سوچ، میرے زاویے، میرے نظریات کیا ہیں؟ یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات و محرکات ہیں جو نوجوانوں کو خود کو تسخیر کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، جو نوجوان اپنی ذات میں ان کے جوابات تلاش کرتے ہیں، وہ تیزی سے یہ منازل طے کرتے جاتے ہیں۔

خود کو جان لینے کے بعد، اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ادراک کرلینے سے، آپ ہر قسم کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ایسے نوجوان مخالفانہ تبصروں اور رویوں سے گھبراتے ہیں، نہ ہی مایوس ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ جان لیتے ہیں ہے کہ انہیں کب، کہاں، کیا، کیسے کام کرنا ہے،وہ اپنی حدود سے واقف ہوتا ہے۔ اس لئے طیش میں آکر انسانیت کی حد سے نیچے بھی نہیں اترتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود آگہی یا خود سے شناسائی کیسے حاصل کی جائے؟ اس کے لئے اکابرین اور مفکرین تین بنیادی سوالات پیش کرتے ہیں اور خود شناسی کے طالب کو اپنے قلب و ذہن میں تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہر انسان زندگی میں کوئی نہ کوئی مقصد ضرور بناتا ہے اور ہر ایک کا مقصد حیات دوسرے سے مختلف و منفرد ہوتا ہے، لیکن سب سے بہترین اور اچھا مقصد وہ ہے، جس میں دوسرے انسانوں کے مفادات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ کیا آپ کے مقصد حیات میں دوسروں کی بھلائی، لوگوں کا نفع اور خوشیوں کا پہلو نمایاں ہے؟ قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز نکمی اور بے کار نہیں ہے۔ 

ہر چیز اور ہر فرد کو کسی نہ کسی مقصد اور کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو وہ کون سے کام ہیں جو خاص آپ کے ہاتھوں انجام پانے ہیں، اگر آپ اپنی شناخت حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں تو پہلےخود اپنا تجزیہ کریں، اپنی سوچ کے زاویوں کو تبدیل کریں۔کاموں کے نتائج کو مدنظر رکھیں۔ اپنے لئے کچھ حدود مقرر کریں، پہلے خود اپنے آپ کو منوائیں پھر ساری دنیا آپ کو مانے گی۔