• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الطاف حسین لندن ہائیکورٹ میں 10 ملین پونڈ کی پراپرٹی کا کیس ہار گئے

لندن (مرتضٰی علی شاہ) الطاف حسین لندن ہائیکورٹ میں10ملین پونڈ کی پراپرٹی کا کیس ہار گئے۔ لندن ہائیکورٹ کے جج کلائیو جونز نے فیصلہ دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان2015کے آئین کے تحت نہیں، جب الطاف حسین نے ایم کیو ایم ختم کر کے اپنے اختیار سے دستبر داری اختیار کرلی تھی، بلکہ2016کے آئین کے تحت اصلی ایم کیو ایم ہے اور وہ لندن میں الطاف حسین کے زیر کنٹرول 6 پراپرٹیز کی اصل مالک ہے۔ الطاف حسین نے موقف اختیار کیا تھا کہ اصلی ایم کیو ایم وہ ہے، جو وہ چلا رہے ہیں اور وہ ایم کیو ایم اصلی نہیں ہے جو فاروق ستار نے ہائی جیک کرلی ہے۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے اپنی 23 اگست کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم پاکستان سے استعفیٰ دیدیا تھا، اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جج نے خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں اور ایم کیو ایم لندن کے خلاف فیصلہ دیدیا ہے، اب اگلے مرحلے میں ٹرسٹیز کے کردار کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جنگ اور جیو نے اس فیصلے کی کاپی حاصل کرلی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج نے لکھا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سید امین الحق کے وکیل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایم کیوایم کا اپریل 2016 کا آئین منظور کیا گیا تھا جبکہ 2015 کا آئین منظور نہیں کیا گیا تھا۔ جج نے لکھا ہے کہ الطاف حسین نے 23اگست 2016 کو ایم کیو ایم سے عارضی طورپر یا مستقل بنیادوں پر علیحدگی اختیار کرلی تھی، اس سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انھوں نے ایک نئی تنظیم قائم کرلی، جو وہ لندن سے چلا رہے تھے۔ اس فیصلے سے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کیلئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ مقدمہ سید امین الحق نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے پارٹی کے بانی الطاف حسین اور دیگر ٹرسٹیز اقبال حسین، طار ق میر، محمد انور، افتخار حسین، قاسم علی اور یورو پراپرٹی ڈیولپمنٹس لمیٹڈ کے خلاف اس ٹرسٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے کیا تھا، جو ابے ویو ہائوس ایجویئر جہاں الطاف حسین رہائش پزیر ہیں، ہائی ویو گارڈن فرسٹ12 ہائوس، ہائی ویو گارڈنز سیکنڈ ہائوس، جہاں افتخار حسین اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پزیر ہیں، وٹ چرچ لین فرسٹ ہائوس، جو لاجرز ہائوس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وٹ چرچ لین سیکنڈ ہائوس، 53 بروک فیلڈ ایونیو ہائوس، جہاں سلیم شہزاد اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور ایم کیوایم فرسٹ فلور ایلزبتھ ہائوس کا دفتر، جو انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے طورپر جانا جاتا تھا، پر مشتمل 6 پراپرٹیز کو کنٹرول کرتا ہے۔ اقبال حسین، طار ق میر، محمد انور نے ایم کیو ایم کے دعوے کی مخالفت نہیں کی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ معاہدے کے تحت علیحدہ ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما ندیم نصرت، جو وائس آف کراچی کے نام سے اپنی پارٹی چلا رہے ہیں، ڈاکٹر فاروق ستار، جو حال ہی تک اپنی ایم کیو ایم چلا رہے تھے اور کراچی کے سابق میئر وسیم اختر نے ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کی اور الطاف حسین کے خلاف عدالت میں پیش ہو کر کھل کر اپنے سابق قائد کا سامنا کیا، ان سب نے کہا کہ ایم کیو ایم نے 2015 کا آئین منظور نہیں کیا تھا اور 2016 کا آئین بحال ہے اور اس وقت بھی موجود تھا، جب الطاف حسین نے رضاکارانہ طورپر پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد فاروق ستار اور دوسروں نے انھیں کبھی پارٹی میں شامل نہیں کیا۔ برطانوی ہائیکورٹ کے فیصلے کا تعلق مقدمے کے پہلے حصے کے بارے میں تھا اور اب اس کے دوسرے حصے کی سماعت جلد ہی شروع کی جائے گی، جس میں مختلف امور بشمول ٹرسٹیز کے کردار اور ایم کیو ایم کے نام پر وصول کئے گئے فنڈ کو بینی فشریز کیلئے استعمال کیا گیا یا نہیں، جیسے امور شامل ہوں گے، کا تعین کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ انگلینڈ اور ویلز اب اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ ایم کیو ایم کے نام پر وصول کئے گئے فنڈ کے بینی فشری الطاف حسین کی زیر قیادت گروپ ہے یا ایم کیوایم پاکستان، جس کی نمائندگی سید امین الحق کررہے ہیں، اس کے بینی فشری ہیں۔ عدالت میں سید امین الحق کا موقف تھا کہ 22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم کی قیادت میں الطاف حسین کا کوئی قائدانہ کردار نہیں تھا اور الطاف حسین نے اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ایم کیو ایم پی کا کہنا تھا کہ 22 اگست 2016 کو اپنی متنازعہ تقریر کے بعد ان کے معافی نامے کے بعد ان کا ویٹو کا اختیار ختم ہوگیا تھا، ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ مدعاالیہان جو ٹرسٹیز ہیں، ٹرسٹ کو معاہدے کے مطابق نہیں چلا رہے ہیں اور تمام اۤمدنی اور اثاثے اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کر رہے ہیں، اس لئے انھیں ٹرسٹیز کے عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کا احتساب کیا جائے، یہ مقدمہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، پہلے حصے میں یہ تھا کہ حقیقی بینی فیکٹر کون ہے، ایم کیو ایم پاکستان یا ایم کیو ایم لندن۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان نے تنظیم کے آئین کی شکل میں متعدد ڈاکومنٹس پیش کئے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔ 2015 کے آئین کا، جس پر الطاف حسین اور دیگر مدعاالیہان انحصار کررہے تھے، ای سی پی کے ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کے پیش کردہ موقف کو تسلیم کیا اور الطاف حسین کی لیگل ٹیم کی جانب سے پیش کردہ کیس پر یقین نہیں کیا۔ جج نے الطاف حسین کا یہ موقف تسلیم کیا کہ انھوں نے 22 اکتوبر 2015 کو ایک آئین کی منظوری دی تھی، جس میں بیشمار غلطیاں تھیں، مقدمے کے پہلے حصے کی سماعت کے دوران الطاف حسین کی لیگل ٹیم کو بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پہلا مرحلہ ایم کیو ایم پاکستان نے جیت لیا ہے اور جج نے قرار دیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم اور حقیقی بینی فشری ہے۔ مقدمے کے دوسرے مرحلے میں مدعاالیہان کا ٹرسٹ سے وصول کردہ رقم کے حوالے سے احتساب ہوگا کہ آیا یہ رقم بینی فشریز کے فائدے کیلئے استعمال کی گئی یا نہیں، اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے تو انھوں نے اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی ہے اور انھیں اب ساری رقم واپس کرنا ہوگی۔ فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ فیصلہ کرنے کیلئے 31 اگست یا یکم ستمبر 2016 کو منظور کی گئی قراردادوں سے اپریل 2016 کے آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں؟۔ اس کیلئے مزید ایک سماعت ضروری ہے۔

یورپ سے سے مزید