• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس فلم میں کہانی کا مرکزی کردار معروف اداکارہ ممتاز نے نہایت عمدگی کے ساتھ ادا کیا۔ یہ ایک ایسی لڑکی رونی کا کردار تھا، جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش تھی، مگر اس کی ماں بچپن میں مرگئی، باپ نے اپنے کاروبار کی وجہ سے اسے وہ ٹائم نہیں دیا، جو بچپن میں اس کی ضروت تھا، جب وہ جوان ہوئی، تو یہ آزاد خیال کی حامل لڑکی مغربی تہذیب میں رنگ گئی۔ 

نائٹ کلبوں اور دیگر خرافات اس کی زندگی کا حصہ بن گئیں، حنیف نامی ایک اوباش مکار شخص نے اپنی محبت کا جھوٹا فریب دے کر اسے بلیک میل کرتا رہا اور روپیہ بٹورتا رہا۔ زندگی کی تنہائیوں سے گھبرا کر وہ مصنوعی قہقہوں اور کلب کی رنگینوں میں کھو گئی، ایک روز اسے جہانگیر ملا، جو ذریعہ معاش کے لیے لوگوں کے دفتروں اور کارخانوں میں اپنی سائیکل کے ذریعے کھانا پہنچاتا تھا، یہ ایک حادثاتی ملاقات تھی۔ 

جہانگیر غریب بستی کا رہنے والا تھا، جہاں غربت تھی، مگر لوگوں کو سکون حاصل تھا۔ جہانگیر کی منگیتر نورجہاں بھی اسی محلے میں رہتی تھی۔ فلم میں مرکزی کردار ندیم اور نِشو نے کیے تھے۔ اس محلے میں ایک پٹھان چائے والا جو جہانگیر کا دوست تھا، اس کا ہوٹل بھی خوب چلتا تھا۔ یہ یادگار کردار اداکار بدر منیر نے کیا تھا۔ اداکار قوی خان اور لہری جو دونوں بھائی تھے، وہ بھی اسی محلے کے باشندے تھے۔ لہری کی لڑاکو بیوی کا کردار نجمہ محبوب نے کیا خُوب انداز میں کیا تھا۔ 

اداکارہ صبیحہ خانم نے بڑی خالہ کا یادگار اور منفرد کردار میں نا قابل فراموش یاد چھوڑیں، جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ لہری اور قوی کی والدہ جب کہ نجمہ محبوب کی ساس کے کردار میں، وہ فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئیں۔ اداکار ادیب نے بدربدمعاش کا کردار ادا کیا تھا، جو اس محلے کے دکان داروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ اداکار ساجن نے ممتاز کے سرمایہ دار باپ کا کردار ادا کیا تھا ،دیگر اداکاروں میں ناصرہ، خالد سلیم لوٹا، ٹینگو جہانگیر مغل۔ اقبال بخاری اورمہمان اداکار رنگیلا کے نام شامل تھے۔

فلم کی کہانی:۔ رونی (ممتاز) جس کے پاس بے پناہ دولت تھی۔ باپ نے بچپن سے ہی اس بن ماں کی بچی پر توجہ اور شفقت دینے کے بجائے اس نے کاروباری سرگرمیوں کو اہمیت دی۔ اس چیز نے رونی کے اندر اکیلے پن کا احساس پیدا کردیا اور جب وہ جوان ہوئی، تو اپنی تنہائیوں کا علاج مشروب مغرب اور کلبوں کی رنگارنگ دنیا میں تلاش کرنے لگی،جہاں ہرچیز نقلی تھی، خوشیاں اور چہرے بھی نقلی تھے، رونی کی دولت اور حسن کی وجہ سے ہر کوئی اسے اپنی سچی محبت کا یقین دلاتا تھا، ایک ایسے ہی لالچی اور بلیک میلر شخص حنیف نے رونی کی زندگی میں قدم رکھا اور اسے بے عزت کرنے کے بعد اس کی تصویروں کے ذریعے اسے بلیک میل کرکے دولت بٹورنے لگا، رونی کو اب پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

وہ نئی تہذیب کی روشنی سے تنگ آکرمرنا چاہتی تھی۔ پھر ایک روز اس کی گاڑی سے لوگوں کے کھانے پہنچانے والا ایک تعلیم یافتہ نوجوان جہانگیر (ندیم) اس کی سائیکل کا ایکسڈنٹ ہوگیا۔ رونی نے اس کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اسے اپنے ساتھ بٹھالیا اور شام کو اس کی غریب بستی میں اپنی لمبی سی کار میں جب چھوڑنے گئی، تو بستی والے سب حیران تھے۔ رونی اس غریب بستی میں آکر بہت خوش ہوئی اور اس نے جہانگیر کو اپنے ڈیڈی سے کہہ کر دفتر میں ملازمت بھی دلادی۔ 

جہانگیر اپنی بستی کا ہر دل عزیز نوجوان تھا، بستی میں چائے کی ہوٹل چلانے والا پٹھان(بدرمنیر) سے اس کی گہری دوستی تھی۔ بستی کے بدمعاش بدرو کوکئی بار ان دنوں نے بزور طاقت بدمعاشی اور غنڈہ ٹیکس لینے سے روکا، جس کی وجہ سے بدرو اور اس کے ساتھی، ان دونوں کے دشمن ہوگئے، رونی، جو حنیف کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی، مگر جہانگیر نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور اسے زندہ رہنے کے لیے ہمت دی۔ 

رونی اس ہمدردی کو محبت سمجھی اور پھر جب وہ ایک روز جہانگیر سے ملنے بستی گئی، تو جہانگیر اور نورجہاں کی شادی کا سن کر دل برداشتہ ہوکر کلب چلی گئی۔ بدرو نے شہر کے ایک لوفر اور بلیک میلر حنیف کے ساتھ نورجہاں کا سودا کرلیا اور نورجہاں کی شادی والے دن اسے اغوا کرکے حنیف کی کوٹھی پر پہنچا دیا جہانگیر اور اس کا دوست خان وہاں پہنچ کرنورجہاں کو بچالیتے ہیں۔ حنیف کو رونی گولیاں مار کر ہلاک کردیتی اور حنیف کی فائرنگ سے رونی بھی ہلاک ہوجاتی ہے۔ نورجہاں اور جہانگیر کا ملاپ ہوجاتا ہے۔

فلم کی کہانی جمیل بسمل کے ’’ ٹی وی ڈرامے‘‘ ’’ ہاوس فل‘‘ سے لی گئی تھی، جس میں خاندانی منصوبہ بندی اور غریب بستیوں کے مسائل کے ساتھ بہت سی باتوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ فلم ساز اداکار قوی نے اس کہانی کو پہلے ’’ نئی روشنی‘‘ کے نام سے فلمانے کا اعلان کیا اور پھر اسے ’’روشنی‘‘ کے نام سے مکمل کی ۔ فلم کی ڈائریکشن بھی انہوں نے خود دی۔ فلم میں جہاں ممتاز اور ندیم کے کردار اہم اور مرکزی تھے، وہاں اداکارہ صبیحہ خانم کا کردار بھی خاصا اہم اور منفرد تھا۔ ’’ بڑی خالہ ‘‘ کا یہ یادگار کردار صبیحہ خانم کے فلمی کیرئیر میں مزاحیہ حیثیت میں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔

اداکارہ لہری اور قوی خان کی والدہ اور اداکارہ نجمہ محبوب کی ساس کے کردار میں وہ فلم کی ہائی لائٹ بنی رہیں۔ لہری نے ایک شرابی ٹیکسی ڈرائیور کے کردار میں بہترین کام کیا، جو اپنی بیوی نجمہ محبوب سے نشے کی حالت میں لڑتا رہتا ہے۔ نجمہ محبوب اور صبیحہ خانم کے آپس میں ایک دوسرے کو کوستے بھی خوب رہے۔ ساس بہو کےجھگڑے جس سے خواتین فلم بین خوب محفوظ ہوئیں، نِشو اور ندیم کے رومانی مناظر، ممتاز کے جذباتی اور دل کش رقص، فلم کی جان تھے۔ مجموعی طور پر قوی خان نے ایک بہترین کمرشل مزاحیہ اور معاشرتی فلم بنا کر فلم بینوں سے خوب داد وصول کی۔

موسیقی اور نغمات:۔ فلم کے موسیقار کمال احمد نے اس فلم کے تمام گانوں کو اپنی سپر ہٹ دھنوں سے ترتیب دیے، جو اپنے وقت میں عوام میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید