آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تحت ڈراموں اور فلموں کی سپر اسٹار ماہرہ خان کے ساتھ ایک ایسی شام کا اہتمام کیا گیا،جو روایت سے بالکل مختلف تھی۔ اس شام نئی نسل کی سپراسٹار سے بین الاقوامی شہرت یافتہ میزبان اور دانش ور انور مقصود نے دل چسپ سوالات کیے اور ماہرہ خان نے ان کے سوالات کے جوابات مُسکرامُسکرا کر دیے۔
ماہرہ خان نے کئی مواقعوں پر انور مقصود کو لاجواب کردیا اور انور صاحب بھی اپنے تجربے کی وجہ سے پُورے پروگرام میں غالب نظر آئے۔ اس موقع پر وقفے وقفے سے آڈیٹوریم میں قہقہوں کی برسات ہوتی رہی۔ ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ میں کسی شخصیت کے سامنے بیٹھ کر نروس ہو رہی ہُوں، جب کہ انور مقصود کا کہنا تھا کہ کئی برس بعد کسی اداکارہ کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔
انور مقصود نے ماہرہ خان سے بہت دِل چسپ سوالات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے ماہرہ خان سے پوچھا کہ زندگی میں پہلی بار ساڑھی کب پہنی تھی۔ بالوں میں لال کلر کیوں کروایا۔ فلم ’’نیلوفر‘‘ فلم میں اندھی لڑکی کا کردار کیوں کیا۔ فلم ’’بول‘‘ میں کام کرنے کے کتنے پیسے ملے۔ مولا جٹ دو بار امریکا میں دیکھی اور ایک بار کراچی میں، اس فلم کی غیر معمولی کام یابی سے آپ کو کتنے پیسے ملے۔
ماہرہ جب تم پیدا ہوئیں، تو میں تمہارے والد کے ساتھ اسپتال میں تھا۔ تمہاری امی میری بیٹیوں کی طرح ہیں، تم بھی میری بیٹی ہو۔ اس لیے بہت سارے سوالات نہیں کر رہا ہُوں۔ میرے پاس سوالات کا ہجوم ہے، مگر تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو، تم نے بھارت میں بھی فلم ’’رئیس‘‘میں کام کیا۔ بھارت کے سب سے بڑے اداکار شاہ رُخ خان کے ساتھ کام کیا۔ شاہ رُخ اور تمہاری ناک کے علاوہ چہرے میں اور کیا چیز کامن ہے۔
فلم ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں دِل کش رقص کیا۔ کیا تم نے رقص کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ تنقید سے مت گھبرایا کرو، وہ دُنیا کے سب سے ڈرپوک ہوتے ہیں، جوکام خود نہیں کر سکتے، تو تنقید کرنا شروع کردیتے ہیں، ان کا کام صرف تنقید کرنا ہے۔ انور مقصود کے تلخ و شریں سوالات نے محفل میں چار چاند لگا دیے تھے۔
ماہرہ خان، وقفے وقفے سے سوالات کے جوابات دیتی رہیں اور تقریب میں رنگ جماتی رہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں نے ٹیلی ویژن پر ایک میوزیکل چینل سے کیریئر کا آغاز کیا۔ تھوڑے عرصے بعد ایک روز شعیب منصور کا میسج آیا کہ فری ہو کر مجھے کال کرو۔ یہ میسج دیکھ کر مجھے بہت خوش گوار حیرت ہوئی، لیکن دل میں بے پناہ خوشی ہوئی کہ یقینا شعیب منصور نے فلم میں کام کرنے کے لیے میسج کیا ہے۔ میں نے ان کو کال کی تو انہوں نے اپنی فلم ’’بول‘‘ میں کام کرنے کی پیش کش کی۔
میں نے انہیں بتایا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے امی ابو سے اجازت لینی ہوگی اور ساتھ میں ایک مشکل اور بھی ہے۔ مجھے ابھی بے بی ہوا ہے، وہ ابھی صرف ایک ماہ کا ہے اور میری گود میں ہے۔ ایسے میں فلم میں کام کرنا کیسے ممکن ہوگا۔ شعیب صاحب کا جواب تھا!! ماہرہ ہمارے یہاں تو ٹیلی ویژن ڈراموں کے سیٹ پر بھی بچے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بشریٰ انصاری اور دیگر فن کاروں کی مثالیں دیں۔ بعدازاں میں اپنے امی ابو اور بچے کو لے کر فلم میں کام کرنے کے لیے لاہور چلی گئی۔ فلم میں کام کرنے کا معاوضہ ٹوکن منی تھی۔ انورصاحب!! آپ میرے لیے کوئی ڈراما لکھیں، تو بہت خوشی ہوگی۔
ماہرہ خان نے بتایا کہ اکثر سوچتی ہوں کہ اگر میں مالی طور پر مضبوط نہیں ہوتی، تو زندگی میں بہت ساری چیزیں ہی نہیں کر پاتیں۔ ہماری لڑکیاں ایک بڑی شادی سے باہر نہیں نِکل پاتیں، کیوں کہ وہ مالی طور پر کمزور ہوتی ہیں۔ بالی وڈ کے کِنگ خان شاہ رُخ خان کے ساتھ فلم میں کام کرنا بہت اچھا لگا۔ وہ میرے زمانے کی ہیرو ہیں۔
میں جب ان کی فلمیں دیکھتی تھی، تو دِل ہی دِل میں سوچتی تھی کہ کیا کبھی میں بھی ان کے ساتھ کام کروں گی۔ اس وقت ایسا سوچنا بھی بہت مشکل لگ رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ شاہ رُخ خان نے دوران شوٹنگ بھی کہا کہ ہم دونوں کی ’’ناک‘‘کے مابین جنگ ہو رہی ہے۔ جب میں شوبزنس انڈسٹری میں آئی، تو سب نے کہا کہ تم اپنی ناک کی سرجری کروالو۔ میں نے سب کو صاف منع کردیا کہ’’اگر میری ناک کٹ جائے گی تو باقی کیا رہ جائے گا۔‘‘
شاہ رُخ خان کی طرح میں بھی اپنے اردگرد کیمرہ مین،لائٹ مین، سب کا خیال رکھتی ہوں۔ وہ سب سے طریقے سے بات کرتے تھے۔ میں نے پاکستان میں بھی اکثر دیکھا ہے کہ بشریٰ انصاری اور جاوید شیخ شوٹنگ پر اپنے وقت پرآتے ہیں، جہاں تک میرے رقص سیکھنے کی بات ہے تو اتنا عرض کردوں کہ میں نے رقص نہیں سیکھا، میری اماں نے ڈانس سیکھنے ہی نہیں دیا۔
میں آج بھی اس بات پر ان سے جھگڑتی ہُوں!! ’’پرے ہٹ لّو‘‘ کے ڈائریکٹر عاصم رضا اورکوریوگرافر نگاہ حسین کتھک رقص کرنے پر میری رہنمائی فرمائی۔ میں تین روز تک ریہرسل کے موقع پر بھاری گھنگھروں پائوں میں باندھ کر گھنٹوں سیٹ پر کھڑی رہتی تھی۔ ڈریس کا وزن بھی کئی کلو تھا، مولا جٹ کے بارے میں معاوضے کی بات کی گئی۔ ہمیں فلم کی شان دارکام یابی پر زیادہ معاوضہ نہیں ملا۔ وہ سب پروڈیوسر ہوتا ہے۔ ہمیں تو صرف ٹوکن منی ملا تھا۔‘‘
ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ میں ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگ سے فارغ ہو کر پُرانے گانے سُنتی ہوں۔ مجھے کینڈل لگا کر اور پُھول سجا کر ٹریجڈی سونگ سُننا اچھا لگتا ہے۔ محمد رفیع کے گیت بھی شوق سے سُنتی ہوں۔ بیرون ملک پڑھنے گئی تو بہت مشکل وقت سے گزری۔ دوجگہ جاب کرتی تھی، جاتے وقت پاکستان سے اپنے ساتھ فلم پیاسا اور ٹی وی ڈراما ’’آنگن ٹیٹرھا‘‘ کی ڈی وی ڈیز لے کر گئی تھی۔ جب اُداس ہوتی تھی تو فلم پیاسا دیکھ لیتی تھی اور جب مسکرانے کودل کرتا تھا تو ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ دیکھ لیتی تھی۔ مجھے ساحر لدھیانوی کے لکھے ہوئے گیت بے حد پسند ہیں۔
ابھی نہ جائو، کبھی کبھی وغیرہ بہت اچھے لگتے ہیں۔ ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کے لیے پنجابی زبان سیکھنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کو آخرکار فواد خان کے سامنے مجھے ہی لانا پڑا۔ میں نے آنے والی فلم ’’نیلوفر‘‘ میں ایک اندھی لڑکی کا کردار نبھایا ہے، جب کہ فواد خان ادیب و شاعر بنے ہیں۔ بچپن ہی سے ساڑھی پہننے کا شوق تھا۔ امی کے دوپٹوں کو ساڑھی بناکر پہنا کرتی تھی۔ میری اماں کوساڑھی کا شوق نہیں تھا۔
البتہ میری نانی ساڑھی شوق سے پہنتی تھیں، میں جب بڑھی ہوئی، تب بھی نانی کے سامنے ساڑھی پہن کر جانے میں ڈرتی تھی۔ حالاں کہ میرا 13سال کا بیٹا ہے، لیکن تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے حالات دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اب جو بھی حکمراں آئے، ایمان دار ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر فضول باتوں کا جواب نہیں دیتی ہوں۔ میرا کام انٹرٹینمنٹ کرنا ہے۔‘‘
تقریب کے اختتام پر حاضرین نے دونوں شخصیات کو شان دار انداز میں کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ، شاہد رسام اور انور مقصود نے ماہرہ خان کو پاکستان کی کلچر سفیر کا خصوصی ایوارڈ دیا۔ اس طرح یہ یاد گار تقریب اپنے بھرپور تاثر کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔