• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
پاکستان میں پچھلے76برس میں جو بھی حکومت آئی ہے نعرے ہمیشہ وہی موجودر ہے ہیں، کرپشن، امریکہ، اسلام خطرے میں اور انڈیا دشمنی تین چوتھائی کی صدی گزر چکی لیکن ان مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ تمام امراض کی شدت میں تیزی ہی آئی ہے، ان تمام نعروں کو ہر سیاسی جماعت اور ریاست نے اپنی تحریروں، تقریروں کا حصہ بنالیا ہے، ہر سیاسی جماعت مذہب کا استعمال ساتھ ساتھ برقرار رکھتی ہے، کوئی کم اور کوئی زیادہ، ہر سطح پر سب نے اسلام کی کوئی منہ، کوئی شکل نافذ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، عوام بھی اس نعرے میں اتنے رچ بس گئے ہیں کہ انہیں اس نعرے سے کوئی بھی بے وقوف بنالیتا ہے، پاکستان نے1952ء میں جب سینٹو سینٹو جوائن کیا تو اصل میں امریکی کیمپ جوائن کیا، ایک زمانے میں پاکستان امریکی دوستی کا یوں دم بھرتا تھا جیسے آج کل چین کا لیکن امریکہ کے حوالے سے ہر حکومت نے عوام کو یہی تاثر دیا کہ ہم امریکہ کے خلاف ہیں جو کہ گزشتہ سات دہائیوں سے لے کر آج تک یہی حکمت عملی ہے اور ہمارے عوام یوں تو عملی طور پر امریکہ جانا یا وہاں جاکر رہنا زندگی کی سب سے بڑی خوش قمتی سمجھتے ہیں لیکن اینٹی امریکہ نعروں پر بھی زیادہ ہی جوش میں آجاتے ہیں، صدر ایوب کے دور میں تو امریکہ نوازی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک طرف مذہب کے حوالے سے امریکیوں کو کہا جاتا کہ وہ اہل کتاب ہیں، اس لیے اہل کتاب کے ساتھ اچھے سماجی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں، لوگوں کو ایسے بے وقوف بنایا جاتا ، جھوٹی خبریں لگائی جاتیں کہ امریکہ کا صدر روزانہ رات کوقرآن کا مطالعہ کرتا ہے، اسی طرح کی خود ساختہ خبریں یورپ کے صدور یا وزرائے اعظم کے بارے میں بھی سنائی جاتیں، ٹونی بلیئر کے ساتھ بھی ایک زمانے میں ایسی ہی باتیں منسوب کی گئی تھیں کہ بلیئر اسلام سے بہت متاثر ہوچکا ہے اور عنقریب گوشہ نشینی اختیار کرکے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح عوام کو ایک فریب میں رکھتے ہوئےامریکہ نوازی اور روس دشمن کو یہاں تک لے گئے کہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست یا سوچ رکھنے والوں کو کبھی سر اٹھانے نہیں دیا،کبھی سازش یا کیس بنا کر کبھی غدار،کبھی ملک دشمن اور کبھی لادین کہہ کر دبایا،اسی لئےپاکستان ترقی پسند سیاست کا کوئی دھڑااپنی جگہ نہیں بناسکا، اسی سینٹو سینٹو کے زمانے میں انڈیا نے بھی روس، امریکہ کیمپ میں شامل ہونے کی بجائے ناوابستہ تحریک کو جوائن کیا اور انہوں نے حتی الامکان دونوں سپر پاورز کے ساتھ متوازن تعلقات رکھے اور دونوں کے ساتھ دفاعی اور تجارتی معاہدے کئے اور ٹیکنالوجی حاصل کی لیکن پاکستان نے سیکورٹی اسٹیٹ کے نام پر صرف اسلحے کی درآمد کی اور امریکہ اور یورپ کی اسلحہ مارکیٹ کے بہترین گاہک رہے جو آج بھی ہیں،پاکستان نے صنعتی ترقی کی طرف نہ ہونے کے برابر توجہ کی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بجٹ کا کم از کم حصہ مختص کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے بلکہ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی ہماری فی ایکڑ پیداوار انڈیا سے چار گنا کم ہے۔ اسی لیے آج ہم اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی میں عالمی سطح کے چند سو ماہرین برآمد کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ابھی دو برس قبل برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے انڈیا کے وزیراعظم کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت انڈیا اگلے پانچ سال میں ساڑھے چار لاکھ طلبہ اور پروفیشنلز برطانیہ بھیجے گا جس کے نتیجے میں آج ہر سات روز میں170لوگ انڈیا سے برطانیہ آکر سیٹل ہورہے ہیں، انہیں اچھی اور بڑی کمپنیاں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں کیونکہ وہ انڈٌیا کی ان یونیورسٹیوں اور اداروں سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں جن کی ابتدا 1950-60ء کی دہائیوں میں کی گئی تھی۔ آج انڈیا میں ایسے اداروں کی تعداد ہزاروں میں ہے جب کہ پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے کسی قسم کے جدید طرز کے ادارے نہیں بنائے گئے لیکن ہم نے مساجد اور مدارس میں خوب اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں آج پاکستان صلاحیت اور کوالٹی کے اعتبار سے عالمی مارکیٹ سے کٹ چکا ہے اور ریاست صرف فوج اور عدلیہ کے سر پر چل رہی ہے۔ کبھی ملٹری اسٹبلشمنٹ عدلیہ کے پیچھے کھڑی ہوجاتی ہے تو کبھی عدلیہ ان کے پیچھے۔ اس ٹام اینڈ جیری کے کھیل میں عوام کی زندگی سکڑ کے فقط بنیادی روٹی تک پہنچ گئی ہے اور اگلے پہر کی روٹی کی فکر نے عوام کی بہتر صلاحیتوں کی پرورش کو گھائل کر رکھا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی میدان میں موجود ٹولہ کسی قسم کے مسائل سے ملک کو نکالنے سے قاصر ہے۔ ان میں نہ صلاحیت ہے نہ ہی وژن، اب اگر آگے بڑھنا ہے تو فقط ترقی پسند سوچ اور پالیسی سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے جس کیلئے نئی قوتوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔
یورپ سے سے مزید