ڈاکٹر قرۃ العین طارق
سفرنامہ، مشاہدات وتجربات اور تاثرات کا مرقع سمجھاجاتا ہے۔ اس میں فردی جذبات کے ساتھ جغرافیائی تناظر، تاریخی واقعات اور سیاسی و عصری حالات کا عکس اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا ذوق و شوق سے مختلف ممالک کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکے۔ فنی و تخلیقی نکتۂ نظر سے سفرنامے کی تکنیک ابتداہی سے بیانیہ رہی البتہ اسلوب اور موضوعات میں زمانی رجحانات کے تحت تبدیلی آتی رہی۔
سفرنامہ نگاری ایسا تخلیقی تجربہ ہوتا ہے جو ماضی کے ساتھ عصری حقائق کا منظرنام بھی پیش کرتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے خیال میں کامیاب سفرنامہ لکھنے کے لئے مقامات کی تاریخی اور معروضی تفصیلات بیان کرنے کے بجائے احساسات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جذبہ واحساس کی یہ رو پروین شیر کے سفرنامے ’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ میں موجزن دکھائی دیتی ہے۔ یہ سفرنامہ پروین کے تخیر، استعجاب اور اضطراب کا منفرد بیانیہ ہے جس میں حرکت ِ زندگی کا ثبوت بھی ہے اور انسانی آلات کی روداد بھی، خود پروین شیر کے الفاظ میں ملاخطہ کریں۔
یہ سفرنامہ نہیں… قدرت کے نگارخانے کے مشاہدات سے جو احساسات کے پھول کھلے، میرے یہ الفاظ انہی کی پنکھڑیاں ہیں۔ ماضی کے گلستانوں کی کچھ خشک اور زرد پنکھڑیاں… جن کے بدن پر بچھی اُجاڑ پگڈنڈیوں کے جال قدم کو موڑ کر صدیوں پرانی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ حال کے بیابانوں کی کچھ ترو تازہ گلابی پنکھڑیاں… جن کے بدن پربچھی پُررونق پگڈنڈیوں کے جال قدموں کو آگے کی سمت لے جاتے ہیں اور نئی دنیاکی سیر کراتے ہیں۔ میرے یہ الفاظ اور مصوری سمندروں سے چن کر لائی ہوئی کچھ سیپیاں ہیں جن سے حاصل شدہ حیرانگی، استعجاب، آنسو اور مسکراہٹ کے گونا گوں رنگوں کے صدفوں کو کاغذ اور کینوس کے آنچل پہ ٹانکنے کی سعی ہے۔
’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ جنوبی افریقا اور پیرو(جنوبی امریکا) کی سفری روداد پر مشتمل ہے، جس میں ماضی کے تاریک گوشوں، جبروتفریق کی داستانوں اور انسانی مصائب کے وسیع منظرنامے کو پوری وجدانی کیفیات کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ احوال و مناظر ایک خاص دورانیے کی نشاندہی کرتے ہیں جب جنوبی افریقا کے محکوم سیاہ فام افراد کو معاشرتی ونسلی منافرت کا شکار بناکر جبرواستبداد برپا کیا گیا۔ پروین نے بطور راویہ اپنے احساسات کو ان اذیت ناک تجربات سے اس طور متشکل کیا ہے کہ یہ سفرنامہ اُن کے ذاتی و وجدانی کیفیات کے طلسمی آہنگ سے جڑے سفر مشاہدات ہی کا بیان نہیں بلکہ ماضی کی بازیافت میں پوشیدہ حیاتی کرب کا ترجمان بھی ہے۔
پروین شیر نے جنوبی افریقا کے باب کو ’’سیاہ روشنی‘‘ اور پیرو کے سفری تجربات کو’’طلسمی جہاں‘‘ قرار دیتے ہوئے انسانی تحقیر و پس ماندگی اور تہذیبی عروج و زوال سے آشنائی عطا کی ہے۔ ایک اور کیفیت جو سفر کے ہر منظر کو قابل دید اور اہم زاویہ ٔ نظر بخشتی ہے وہ مقام و واقعات سے جڑی حساسیت کا پر اثر بیانیہ ہے۔’’سیاہ روشنی‘‘ کے ہالے کو پروین نے ایلکس ہیلے کے ناول Roots (جڑیں) سے موسوم کرتے ہوئے لکھا ہے:
اس کا دل، اُس وقت دُکھا جب اس نے ناولسٹ Alex Haley کے ناول Roots کا مطالعہ کیا تھا اور اس کی ٹی وی سیریز دیکھی تھی تقریباً بیس سال قبل، اس ناول میں ایلکس ہیلے نے اپنے آبائواجداد کے متعلق سات پشتوں کی روداد قلم بند کی تھی جو کونٹا کینٹے نامی شخص سے شروع ہوتی ہے۔ وہ 1750ء میں مغربی افریقا میں پیدا ہوا تھا ایک مسلمان خاندان میں … پروین کے دل میں درد کی کونپل اسی وقت پھوٹی تھی جب کونٹا کینٹے کو اُن سفید فام تاجروں نے ترازو پر وزن کرکے غلام بنایا اور فروخت کردیا تھا۔ وہ صرف ایک غلام تھا انسان نہیں۔
اس کی پہچان اس سے چھین لی گئی تھی۔ وہ اپنا مذہب اسلام، بدلنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجبور تھا… یہ سب کچھ پڑھ کر، سن کر، وہ پگھل کر مظلوم کے آنسوؤں میں بہنے لگی تھی۔ وہ ہر پسی ہوئی روح میں سانس لینے لگی تھی اور تب اُس کا دل اُس سر زمین کودیکھنے کوبے چین ہوگیا تھا جہاں یہ تشدد قانوناً رائج تھا۔
پروین کا اہم وصف اُن کی سادگی اور ابلاغی قوت ہے جو جذبات کی ہلکی سرسراہٹ اور خارجی صورت گری کے تحت گزرے وقت کو اپنی گرفت میں لے کر عصر حاضر کا احوال بیان کرتی ہیں۔ ایک ا نسان دوست اور درد مند شخصیت ہونے کے ناتے وہ انسانی مصائب اور پائمالیوں کی تصویریں عیاں کرتی ہیں۔ جب وہ انسانیت کی تذلیل دیکھتی ہیں تو دکھ اور ملال کی جاں گداز کیفیت، زندگی کے مثبت اور منفی رویوں کو آشکار کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس اقتباس میں نہاں درد و الم کا بیان ملاحظہ ہو:
ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں، نرم بستر کی آغوش میں سمٹی ہوئی وہ سوچ رہی تھی۔ کٹھن زندگیوں کے متعلق، ان آنکھوں کے متعلق، بوسیدہ کپڑوں میں لپٹے ہوئے جسم کے اندر دل میں نہاں ریشمی خوابوں کے متعلق، غربت کے بلبلوں میں بند اُن پرندوں کے متعلق جو اونچی اُڑانوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس کے دل کی خندق آنسوئوں سے بھری جارہی تھی۔ کبھی نہ بھلائے جانے والے لمحات ذہن پر قابض تھے۔ ہزاروں ’’کیوں‘‘ کی مکڑیاں ذہن کو اپنے جال میں قید کررہی تھیں۔
اس سفرنامے میں کئی مقام آہ و بکا ایسے بھی ہیں جہاں پروین نے لفظی عکاسی ہی نہیں کہ بلکہ اپنے احساسات کو شعری آہنگ میں سمو کر زمینوں اور زمانوں کا کرب نمایاں کیا ہے اس خطہ ارضی میں نوآباد کار سیاہ فام باشندوں سے جبرو استحصال کے مناظرنسل کشی، انسانی بے بسی اور اُمید و بیم کی متنوع کیفیات کو نظم’’ سلاخیں چیختی ہیں‘‘ میں شدت احساس کے ساتھ یوں رقم کیا ہے۔
سلاخیں چیختی ہیں سوزِ غم سے
آج بھی تھامے ہوئے
اس کی لرزتی انگلیوں سے ہرنشاں
زندان کی پتھریلی فصیلیں سسکیاں لیتی ہیں
ایسے سرجھکائے بے کسی کے جال میں
مگرراسخ صداقت کی صدا اس کی زباں پرہے
کہ اس کے عزم محکم کی توانائی کے آگے
یہ فصیلیں بے حقیقت ہیں
سلاخیں آج بھی دل گیر ہیں
ان انگلیوں کے ایک اِک زخمی نشاں
بھیگی ہوئی آنکھوں سے تکتی ہیں…!
ماضی کی بازیافت اور حال کی کربنا کیوں کے اس سفر میں پروین کی ذات، اس ہجوم آزردہ کے ہم رکاب طبقاتی، معاشرتی اور سیاسی استبداد کے کینے ہی دریچے وا کرتی جاتی ہے۔ وہ ’’دیار تشدد(سوازی لینڈ)‘ میں انسانی پامالیوں کی داستانیں ہو یا ’’ دیارِ ایذا (روبن جزیرہ) میں برپا بربریت کے مناظر۔ وہ ’گونجتی خاموشیاں‘ (ڈسٹرکٹ میوزیم) میں مقید اذیت کی نشانیاں ہوں یا نسلی تعصب پرلکھی دل دوزکہانیاں، سب ’’سیاہ روشنی‘‘ کے پس منظر میں پھیلی تاریکی اور تلخی دوراں کو بخوبی نمایاں کرتی ہیں۔ پروین نے ان سلگتی حقیقتوں کو اپنی نظموں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ احساس وادراک کے بے شمار مناظرذہن و فکر کو انسانی درندگی اور استحصال سے آگاہ کردیتے ہیں۔
یہ حقیقت کتنی خوش کن ہے کہ اسی سیاہ ر وشنی کے سینے سے ہی ، نیلسن منڈیلا کی صورت اُمید کی نئی کرن اُبھری، جس نے صدیوں سے جاری نسلی منافرت، جبر و استبداد اور سفید فام تسلّط کا خاتمہ کیا۔ پروین شیر نے نیلسن منڈیلا کی کارزارِ حیات اور جدوجہد آزادی کے اِن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے جو سیاسی مصائب و آلام، قید و بند کی صعوبتوں، فلسفۂ آزادی اور جمہوری طرزِ حکومت سے متعلق رہیں۔ پروین نے اس سفر کو احساس و مشاہدات سے ہی ہم رکاب نہیں کیا بلکہ اپنے پُراثر بیانیے سے اِنسانوں کے باہمی افتراقات اور امتیازات کو بھی نمایاں کیا ہے۔ ان الفاظ میں نہاں دَرد و اَلم، کتنے دلدوز واقعات کا ترجمان ہے۔
اور… ایک دِن سیاہی کے سینے سے اُجالے کا سمندر اُبلا۔ ساری ظلمتیں دُور ہوگئیں۔ آج ساؤتھ افریقہ میں یہ روبن جزیرہ فتح، آزادی، عزتِ نفس اور عزم مصمّم کی یادگار ہے، ظلم اور تشدد کی شکست کی نشانی۔ وہ پھر سے کورٹ یارڈ میں آ گئی تھی،وہاں سے منڈیلا کے قیدخانے کی چھوٹی سی کھڑکی نظر آ رہی تھی… گائیڈ نہایت فخر سے اپنے ہیرو اور ملک کے مسیحا کی زندگی کی کہانی سُنا رہا تھا۔ پروین اُداس کھڑی ہوئی منڈیلا کے قیدخانے کی کھڑکی کو کورٹ یارڈ سے تک رہی، گائیڈ کی باتیں سُن رہی اوراِنسان کی حیوانیت کے متعلق سوچ رہی تھی۔
بلاشبہ پروین کے خارجی مشاہدات اور داخلی تاثرات نے ’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘ کو منفرد سفرنامہ بنا دیا ہے، جہاں نامیاتی حقائق، باریک جزئیات نگاری، ندرتِ بیان اور شعری اظہاریت، پُراَثر وجدانی کیفیات طاری کر دیتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کے فکری و عصری شعور نے انھیں تہذیب و معاشرت کے تجزیاتی مطالعے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس سفرنامہ کے ذریعے پروین شیر نے تاریخ کے بے شمار صفحے اُلٹ کر جو واقعات رقم کیے ہیں وہ دُکھ، دَرد اور کرب کی تصویریں عیاں کرتے ہیں۔ اس طرح اُنھوں نے حسیّت، ارتکازات اور رُوحانی کیفیات کو وسیع پس منظر عطا کرکے مؤثر تخلیقیت کی نموکاری کی ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی