• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد وقار

اس ہفتے ہم آپ کو چند اشعار اور ان کے دلچسپ تاریخی پس منظر کے بارے میں مختصر بتا رہے ہیں۔ کچھ اشعار کے بارے میں اختلافات ہیں، کہا جاتا ہے یہ ا شعار جن شعرا سے منسلک ہیں، یہ ان کے نہیں ہیں، کچھ کا پس منظر ہے، زیل میں ان اشعار اور ان کے شعرا کے بارے میں ملاحظہ کریں۔

خزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

(رام نرائن موزوں)

اس شعر کے خالق راجا رام نرائن موزوں ہیں۔ یہ مشہور شاعر شیخ علی حزیں کے شاگرد اور بہار میں مقیم تھے۔ فارسی میں شعر کہتے، کبھی کبھی اردو میں بھی کہہ دیتے۔ بنگال کے عظیم مجاہد سراج الدولہ کی شہادت پر روتے روتے درج بالا شعر کہا۔ شعر میں خزالاں سے مراد سراج الدولہ کے سپاہی ہیں۔ مجنوں اور دیوانہ سراج الدولہ کیلئے استعارے ہیں ،جبکہ ویرانے سے مراد عظیم آباد کی تباہی ہے۔ شاعر نے دوسرے مصرع میں گو ردا استعمال کیا ہے لیکن لوگ گزری پڑھتے ہیں۔

اکبرالہ آبادی
اکبرالہ آبادی 

٭…٭…٭

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

(میر تقی میر)

مولانا محمد حسین آزاد
مولانا محمد حسین آزاد

مولانا محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’لکھنئو پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے، ایک سرائے میں میر تقی میر اترے۔ معلوم ہوا کہ آج وہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں شامل ہوئے۔ جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنئو نئے انداز، نئی تراشیں بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ میر صاحب، غریب الوطن زمانے کے ہاتھوں سے پہلے ہی دل شکستہ تھے،دل تنگ ہوا اور ایک طرف بیٹھ گئے۔

شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی ، بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے متذکرہ بالا قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا۔ ’’سب کو معلوم ہوا تو بہت معذرت کی۔‘‘

 
امیرخسرو
امیرخسرو

٭…٭…٭

شعلہ بھڑک اٹھا مرے اس دل کے داغ سے

آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

(مہتاب رائےتاباں)

’’آب حیات‘‘ میں مولانا محمد حسین آزاد، مرزا رفیع سودا کے متعلق رقم طراز ہیں۔


فانی بدایونی
فانی بدایونی 

’’ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی بارہ تیرہ سال کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔ پوچھا۔ یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت،یہ صاحبزادہ ہے، انہوں نے بھی بہت تعریف کی، بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ،لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت کچھ دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔‘‘

میر درد
میر درد 

بعض ناقدین نے اس سارے قصے کوآزاد کا طبع زاد افسانہ کہا ہے۔ ان کے بقول یہ شعر اس لڑکے کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ پنڈت مہتاب رائے تاباں دہلوی کے شعر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ تاباں، میر درد کے ہم عصر تھے۔ بعض تزکرہ نویس تاباں، بعض تائب اور بعض تاب لکھتے ہیں۔

 مختار الدین احمد، تائب کو درست کہتے ہیں۔ ایک کتاب ’’آثار شعرائے ہنوز‘‘ مطبوعہ 1886ء میں تاباں اور تاب کو الگ الگ شاعر کہا گیا ہے۔ دونوں کو برہمن لکھا ہے۔ تاب کشمیری الا مل تھے اور ان کا نام مہتاب رائے تھا۔ تاباں کے متعلق جن سے یہ شعر حقیقتاً منسوب ہے، لکھا ہے۔ ’’پنڈت مہتاب رائےبارہ برس کے تھے کہ انہوں نے میر درد کے مشاعرے میں آکر غزل پڑھی۔ مطلع یہ ہے:

ابن انشاء
ابن انشاء 

’’شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے… الخ‘‘

٭…٭…٭

پگڑی اپنی سنبھالے گا میر

اور بستی نہیں یہ دلی ہے

(بقا اللہ بقا)

یہ شعر دہلی کے مشہور شاعر شاہ حاتم کے شعر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس کے پہلے مصرع میں تصرف ہوا ہے۔ پہلا مصرع کچھ یوں ہے۔

پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو

شعر میں شاہ حاتم کے شاگرد بقا اللہ نے ،میر پر چوٹ کی ہے۔ پہلے مصرع میں میر آنے کی وجہ سے لوگ اسے میر تقی میر کا شعر سمجھتے ہیں۔

٭…٭…٭

شاہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

مرزاعظیم بیگ
مرزاعظیم بیگ 

مرزا عظیم بیگ ایک دن میر ماشا اللہ خان (انشا اللہ خان کے والد) کے پاس آئے، ایک غزل سنائی جو بحررجز میں تھی مگر ناواقیت میں کچھ شعر بحررمل میں جا پڑے۔ سید انشا بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرارکیا۔ ’’مرزا صاحب، اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔‘‘ مرزا عظیم بیگ نے یہ غزل مشاعرے میں پڑھی۔ سید انشا نے وہیں تقطیع کی فرمائش کردی۔ مرزا صاحب پر جو گزری، سو گزری لیکن سید انشا کے سامنے دم نہ مار سکے۔ انشا نے ایک مخمس بھی پڑھا جس کا مطلع ہے۔

 
امیر مینائی
امیر مینائی

گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے

کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے

اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے

پڑھنے کو یارشب جو غزل در غزل چلے

بحررجز میں ڈال کر بحررمل چلے

مرزا عظیم بیگ نے بھی گھر جاکر اس مخمس کا جواب لکھا اور مشاعرے میں پڑھا۔ اس کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔

وہ فاضل زمانہ ہو تم جامع علوم

تحصیل صرف ونحو سے جن کی مچی ہے دھوم

محمد ابراہیم ذوق
محمد ابراہیم ذوق 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درم و دام اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

(غالب)

بقول مولانا محمد حسین آزاد بحوالہ آب حیات حسین علی خان کا چھوٹا لڑکا ایک دن کھیلتا کھیلتا مرزا غالب کے پاس آیا کہا، دادا جان، مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں ہیں۔ وہ صندوقچہ کھول کر ادھر ادھر پیسے ٹٹولنے لگا۔ غالب نے پھر فی البدیہ مند رجہ بالا شعر کہا۔

جلیل ملک پوری
جلیل ملک پوری 

٭…٭…٭

اے صنم وصل کی تدبیر سے کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

(محمد رضا برق)

یہ شعر درج ذیل شکل میں آغا حشر کاشمیری سے منسوب ہے۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

٭…٭…٭

کہا جاتا ہے کہ آغا صاحب نے اپنے کسی ڈرامے میں موقع کی مناسبت سے مصرع ثانی کو مدنظر رکھتے ہوئے مصرع ادنی کہا لیکن یہ شعر در حقیقت محمد رضا برق کا ہے۔

٭…٭…٭

میر محبوب علی آصف
میر محبوب علی آصف 

اس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔

یہ صفی لکھنوی کا ایک یاد گار ترانہ ہے۔ 1912ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں اس ترانے میں:

لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں

کس کس کی مہر سے سر محضر لگی ہوئی

مرزا محمد رفیع سودا
مرزا محمد رفیع سودا 

اس مشا عرے میں علامہ اقبال بھی موجود تھے، مصفی لکھنوی نے یہ ترانہ پڑھا۔

لائو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

یہ شعر نظام دکن میر عثمان علی خاں کے والد ، میر محبوب علی خان سے منسوب ہے۔ اس شعر کی شان نزول یہ بیان کی جاتی ہے کہ میر محبوب علی آصف کی تخت نشینی کے دوران بعض امرائے سلطنت نے انگریز وائسرائے سے یہ شکایت کی کہ شہزادہ تعیش پسند ہے اور بادشاہت کے لائق نہیں اس لئے ان کے بجائے کسی اور شہزادے کو یہ منصب عطا کیا جائے۔

داغ دہلوی
داغ دہلوی 

کہتے ہیں جب اس سازش کا حال میر محبوب علی آصف پر کھلا تو انہوں نے یہ شعر کہا۔ بعض جید محققین اور ناقدین کی رائے اس ضمن میں بین بین ہے۔ امیر مینائی، مرزا داغ دہلوی اور جلیل مانک پوری کے حوالے سے بھی شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ شعر ان کا ہوسکتا ہے۔ اسی زمین میں امیر مینائی نے بھی اشعار کہے ہیں مثلاً:

کچھ خوف روز حشرہے دل میں ترے امیر

ہے زندگی سے موت برابر لگی ہوئی

٭…٭…٭

اے خال رخ یار تجھے ٹھیک جانا

جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر

شاہ نصیر
شاہ نصیر 

(شاہ نصیر)

حافظ عبدالرحمٰن خان احسان مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی سرکار میں مختار کل تھے۔ بار ہا آپ کے شاہ نصیر سے اختلافات ہوئے۔ شاہ نصیر نے ایک مرتبہ کسی بات پر بگڑکر درج بالا شعر کہا۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی