کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی ٹائمنگ سوالیہ نشان ہے.
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا، دعا ہے کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اکتوبر میں انتخابات کے اعلان کے حوالے سے صدر عارف علوی کا کہنا تھا اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے، انہوں نے یہ بات صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے عمران خان کو بتا دی تھی۔
بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ جو آصف زرداری نے لگایا تھا، میں سندھ کا رہنے والا ہوں، مجھے معلوم ہے حالات اتنے خراب تھے کہ اس وقت کوئی اور نعرہ پاکستان کو توڑ سکتا تھا۔ حامد میرنے کہا کہ یہ کریڈٹ آپ آصف زرداری کو دے رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا؟
عارف علوی نےکہاکہ میں نے ہمیشہ دیا ہے، آج نہیں دے رہا اس دن سے دے رہا ہوں جس دن سے انہوں نے نعرہ لگایا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ مارشل لاء کا خطرہ ہے۔میں لوگوں کے تبصرے اس پر سنتا رہامجھے خیال آتا ہے کہ ٹائمنگ بہتر ہوسکتی تھی یا تو پہلے ہوجاتا یہ بحران کے اندرٹائمنگ کے اندر سوالیہ نشان ضرور ہے۔میں سمجھتا ہوں could have been betterمگر میں نے عام طو رپر لوگوں کا تجزیہ یہ سنا کہ کچھ نہ کچھ اس کو اسٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ جس طرح سے اپنے آپ کو چلاتی ہے اس سلسلے میں بہت ساری رائے سپریم کورٹ کے اندر سے آئی اور کافی دنوں سے یہ ڈسکشن ہورہا ہے ۔ تووہ اپنے اعتبار سے ان کو بھی اعتماد میں لے کر یہ معاملات کر لینا چاہئیں ۔
پاکستان کے اندر جب زور زبردستی کے ساتھ کوئی چیزکی جاتی ہے تو اس کے اندر بہت زیادہ سوالیہ نشان پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو ترقی یافتہ جمہوریت ہیں ان کے اندرperson سے اختلاف کرلیا جاتا ہے یا reasonable consensus یعنی100فیصد consensus توووٹنگ پیٹرن کے اعتبار سے چاہے کانگریس ہو چاہے پارلیمنٹ ہوتو 100 فیصد consensus نہیں آتا۔ بہت ساری چیزوں کو consensusٹائمنگ کے حوالے سے یا ان کی شقوں کے حوالے سے یا سپریم کورٹ کے ساتھی یہ گفتگوہے تو ان کے ساتھ بھی مشاورت کسی نہ کسی انداز سے ہوجائے تو اچھا ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ میں نے اس کو ابھی دیکھا نہیں ہے میں نے ابھی پڑھ دیا ہے جو ڈرافٹ ہے کل پرسوں پڑھ لیا تھا۔ اس کے اندر کیاترمیم ہوتی ہیں تو یہ پری میچور ہوگاکہنا کہ کیا کروں گا میں۔مگر یہ کہ اس کی فائنل فارمیٹ جب آجائے گی وہ اچھا وقت ہوگا کہ صحیح فیصلہ کرلیا جائے۔ البتہ میں بھی جس ملک کے اندر اتنے بحران چل رہے ہوں اس کے اندر میں بھی ایک مثبت رول ادا کرنا چاہتاہوں ۔
بحران پیدا نہیں کرناچاہتا solving mode کے اندر ہوں جبextreme positions ہوں توcrisis solving بھی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اس میں جو بھی آپ بات کہیں وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اعتبار سے متنازع بن جاتی ہے۔ اگر میری کوئی رائے ہے تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی رائے ہے حالانکہ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ غیر جانبدار ہوکر اپنی بات رکھوں جس بات کی ضرورت ہے وہ رکھی جائے۔ میں آج صبح کسی سے اس بات کو زکر بھی کررہا تھاکہ جب پریشر پڑھتا ہے انسان پر تو کہیں نہ کہیں وہ پریشان ہوجاتا ہے۔
کہیں نہ کہیں وہ اپنے مزاج سے ہٹ کر بھی بات کرتا ہے میں مثال دے رہا تھا ہماری ایک پارٹی پی ٹی آئی کی ۔ جب ان پر آنسو گیس وغیرہ ہوئی توانہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ٹیلی ویژن پر وہ عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔تو یہ عام پبلک ری ایکشن ہیں پریشر پڑے گا وہ ری ایکٹ کرے گا۔
یہی حال اداروں کا ہے میرے اوپر پتھر پڑیں جو کچھ بھی ہومجھے ایک دفعہ کسی تھانے میں غصہ بھی آیاتو میں نے وہ الفاظ استعمال کئے جو میں عام طو ر پرنہیں کرتا ہوں بعد میں شرمندگی ہوتی ہے کہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔مگر اسی طرح سے جب اداروں پر پریشر آتا ہے کریکس نظر آتے ہیں یہ میرے کریکس ہیں جن کا میں نے آپ سے ذکر کیا ہے یعنی میری99فیصد شخصیت کا حصہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی نہ انسان پر ایسا پریشر ڈالاجائے مار پیٹ کا یاکسی کو اغوا کرلیا جائے ۔