• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:رفیعہ ملاح
ہمارے سماجی مساِئل اتنے زیادہ اور گھنائونے ہیں کہ ہم روزانہ ان مسائل سے الجھ کر گذرتے بھی ہیں مگر ان پر سوچتے نہیں ہیں کیوں کہ ہمارے پاس مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اب تو ہمیں مسائل بھی مسائل محسوس ہی نہیں ہوتے ہیں ۔ ان مسائل میں ایک اہم مسئلا انسانی اسمگلنگ کا بھی ہے ۔ اس ہیومن ٹریفکنگ یا انسانی اسمگلنگ کا بنیادی سبب غربت ہے ۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہی انسانی اسمگلنگ سے لیکر باقی تمام غیرقانونی دھندے ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ کے تحت نہ صرف یہاں سے خواتین ۔ بچوں اور مردوں کو دوسرے ملکوں کی طرف اسمگل کرنا ہے مگر کئی ممالک کی خواتین وہاں سے لاکر یہاں پر بھی فروخت کی جاتی ہیں ۔ہمارے ملک سے ہیومن ٹریفکنگ کا ایک تو وہ بچے شکار ہوتے ہیں جن کے والدین غریب ہیں وہ بچے بھیک مانگتے ہیں پھر وہ بچے آسانی سے ان عناصر کا شکار بن جاتے ہیں جو اس دھندے میں ملوث ہوتے ہیں ۔ اور ایسے بچوں کے والدین غربت اور ان پڑھ ہونے کے باعث کوئی رپورٹ بھی درج نہیں کرواتے ہیں ۔ وہ بچے اور بچیاں ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث عناصر کے لیئے سافٹ ٹارگٹ ہوتے ہیں ۔ دوسری وہ خواتین جو والدین کی مرضی کے بغیر کسی عشق یا بلیک میلنگ کی وجہ سے گھر سے نکل جاتی ہیں پھر وہ ان کرمنلز کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور وہ بھی سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں ۔ حتی کہ ان بچیوں کے پاس واپس جانے کا آپشن تو موجود ہوتا ہے لیکن وہ ڈر اور سماجی طنز و تذلیل سے بچنے کے کوشش کرتی ہیں ۔ اور ان کی مجبوری کا فائدہ وہ موقع پرست لوگ لیتے ہیں جو کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث ہوتے ہیں . اس وقت یہ انسانی اسمگلنگ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کچے والے ان علاقوں میں بھی ہو رہی ہے جہاں ڈاکوؤں کا راج ہے ۔ ڈاکوؤں اغوا برائے تاوان کے لئے لوگوں کو اغوا کر ایک سے دوسرے کو بیچ دیتے ہیں اور اسی طرح مغوی کی بازیابی کے لیے ان کے ورثاء کو گذرتے وقت کے ساتھ زیادہ رقم ادا کرنی پڑجاتی ہے. انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے اسلام آباد میں یو ایس ایمبیسی پئون ْآور ایس ایس ڈی او کے جانب سے " انسانی اسمگلنگ سے بچاؤ " کے موضوع پر ہونے والے ورکشاپ کے شرکاء نے بہت ہی اہم اور تکلیف دہ انکشافات کیئے ۔ انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث لوگوں کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ یہاں سے لیکر کسی اور ملک تک ملزمان کا کوئی تو ایسا نیٹ ورک ہے جو جہاں جہاں انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے وہاں اپنا کام کر رہا ہے اور ان کے خلاف کسی اور ملک میں بھی کارروئی نہیں ہو رہی ہے ۔ یہ عمل روکنے کے لیے اب ہمیں سنجیدگی سے بطور شہری اپنا کردار پڑے گا ۔ یہ حکومت اور ان اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف کریک ڈائوں کرے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور و آگاہی کے لئے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ اسکالرشپ اور تعلیم کے ساتھ روزگار کے مواقع تلاش کرنے والوں نوجوانوں کو تعلیمی اداروں کی سطح پر وہ راستے دکھا دیئے جائیں جس سے وہ قانونی اور محفوظ طریقے سے اپنے ٹارگٹ حاصل کر سکیں ۔ شارٹ کٹ کے نقصانات سے ان کو بخوبی آگاہ کیا جائے تا کہ وہ کسی گروہ کے بھکاوے سے بچ سکیں ۔ سوشل میڈیا کے علاوہ.گائوں دیہات میں اس قسم کے پوسٹر لگوائے چاہئے جس سے لوگوں کو اس انسانی اسمگلنگ سے متعلق پتا چل سکے ۔ چھوٹی چھوٹی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر انسانی اسمگلنگ کے حوالے رکھنی چاہئے ۔ اور اسکالرشپ یا جاب آفر کرنے والی جعلی ویب سائیٹس کو سائبر کرائیم کی مدد سے پاکستان میں روکا جائے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں بھی کوئی ایسا نادرہ کے ساتھ مل کر نیٹورک بنایا جائے جہاں سے بچے کے پیدا ہوتے ہی ان کی کوئی فنگر یا فیس ریڈنگ سے ہی ان کی رجسٹریشن اسی والدہ سے ہوجائے اور خدانخواستہ کبھی وہ بچہ مس ہوجائے تو اس کی تلاش میں آسانی ہو سکے ۔یو ایس ایمبیسی ۔ پئون اینڈ ایس ایس ڈی او نے کی جانب سے ہونے والے سیمینار میں شرکت کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے ارگرد کئی اس قسم کے واقعات اور مجرمانہ سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ہیں ۔ اس وقت حالات ہر ایک کی زندگی میں ایک عجیب سی لاتعلقی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہمیں صرف اپنی اور پنی فیمیلی کی فکر رہتی ہے ۔ یہ خود غرضی کا جہاں ہمارے سماج کو تباہ کرنے جا رہا ہے ۔ اب سے دو دہائیاں پہلے تک لوگ اجتماعی سوچتے ہیں ۔ گلی محلے سے لیکر گاؤں گوٹھ تک کے مسائل اجتماعی سمجھ کر حل کیئے حاتے تھے ۔ جس کے باعث جرائم پر بھی کافی کنٹرول تھا۔ مگر جب ست ہم نے ہم چھوڑ کر میں تک محدود ہونا شروع کیا ہے تو اب ہم اکیلے ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہمیں تمام برایوں سے لڑنے کے لئے ایک جامع کوشش کرنی ہوگی ۔میں سے نکل کر ہم پر سوچنا ہوگا ۔ اسی عمل سے ہی ہم اپنی گلی ۔ گوٹھ ۔ شہر ۔ صوبے اور وطن کو تمام برایوں سے نجات دلا سکیں گے ۔ بصورت یہ برائیاں وہ بڑھتی ہوئی آگ ہیں جو ہوا جھونکے پر ایک کے بعد ایک درخت کو جلاتی جائیں گی۔
ملک بھر سے سے مزید