کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنمامسلم لیگ ن ، طلال چوہدری نے کہا ہے کہ جو بیانیہ مریم نواز لے کر چلی ہیں اس کے اثرات پارلیمنٹ میں بھی پڑ رہے ہیں،سوموٹو کے اختیار ذوالفقاربھٹو، نواز شریف کو دی گئی غلط سزا تو ٹھیک نہ کرسکی،میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اختلافات نہ صرف کھل کر سامنے آگئے ہیں بلکہ اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بینچز کی تشکیل سے لے کرمقدمات کی سماعت اورفیصلوں کی تشریح تک ہر اقدام پر سوال اٹھ رہا ہے یہ سوال کوئی اور نہیں خود سپریم کورٹ کے ججز اٹھا رہے ہیں۔سینئر رہنمامسلم لیگ ن ، طلال چوہدری نے کہا کہ فرق پڑ رہا ہے سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار پچھلے 35 سال سے ہے نہ کبھی پارلیمنٹ میں سے آواز اٹھی نہ جج صاحبان سے آواز اٹھی نہ اس طرح کوئی ایکشن سامنے آیا۔جو بیانیہ مریم نواز لے کر چلی ہیں اس کے اثرات پارلیمنٹ میں بھی پڑ رہے ہیں ۔اس سوموٹو نے پاکستان کو آج تک دیا کیا ہے اس نے لیا ہی لیا ہے؟سوموٹو سے وہ فیصلے کئے گئے جو کہ اتنے متنازع ہوئے کہ نہ صرف عدلیہ پر داغ لگے بلکہ پورا کا پورا نظام انصاف پر داغ لگتے رہے۔سوموٹو کے اختیار ذوالفقاربھٹو، نواز شریف کو دی گئی غلط سزا تو ٹھیک نہ کرسکی۔ سوموٹو چیف جسٹس صاحبان کے جب تک اختیار میں رہا اس میں نہ صرف متنازع نوٹس لئے گئے بلکہ اس کے بعد متنازع فیصلے سامنے آئے۔اگر100میں سے کوئی ایک فیصلہ صحیح ہواہے تو آپ کو مجموعی طور پر دیکھنا ہے یہ35 سال کا معاملہ ہے۔ یہ اختیار سپریم کورٹ سے لیا نہیں گیاسپریم کورٹ کو ہی دیاگیا ہے اسے ریگولیٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس کے سینئر جج صاحبان کو اس پر فیصلہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے پارلیمنٹ نے بڑا سوچ سمجھ کر اجتماعی دانش سے یہ فیصلہ کیا ہے۔عدالت کو اس کیس کا فیصلہ کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے؟ کیا پارلیمنٹ کو نہ ماننے اور اس کے فیصلے تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے؟اعتراضات کے باوجود کیس آگے بڑھتا ہے تو انگلیاں تو اٹھیں گی۔متنازع فیصلے کے نتیجے میں انتخابات بھی متنازع ہوں گے۔ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے کہ ہمیں انصاف ملے۔ میرا کیریئر کیوں داغدار کیا گیا؟میرے پانچ سال کون لوٹائے گا۔عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات کا کوئی موازنہ نہیں ہے عمران خان نے تو سب گناہ کئے ہیں ہمیں تو ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے۔عمران خان کو جلدی اس لئے ہے کہ کہیں اس کو اس کے گناہوں کی سزانہ مل جائے فیصلے نہ آجائیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اختلافات نہ صرف کھل کر سامنے آگئے ہیں بلکہ اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بینچز کی تشکیل سے لے کرمقدمات کی سماعت اورفیصلوں کی تشریح تک ہر اقدام پر سوال اٹھ رہا ہے یہ سوال کوئی اور نہیں خود سپریم کورٹ کے ججز اٹھا رہے ہیں۔خاص طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اختیارات ان کے استعمال پر مسلسل بات ہورہی ہے ۔ جمعرات کو بھی سپریم کورٹ میں ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہوئی ججز کے درمیان تقسیم اور اختلافات کی ایک اور مثال سامنے آئی۔پنجاب اور خیبر پختونخواکے انتخابات سے متعلق کیس سننے والا بینچ ٹوٹ گیاجس کے بعد کیس کی سماعت ہی نہ ہوسکی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے ایک فیصلہ دیاجس میں کہا گیا ہے کہ جب تک سوموٹو کے طریقہ کار سے متعلق رولز نہیں بن جاتے ۔اس وقت تک آرٹیکل184/3کے تحت ہونے والے تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کی جائے۔خصوصی بینچز کی تشکیل کے لئے بھی قواعد بنائے جائیں تین رکنی بینچ میں سے یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے جاری کیا ہے جب کہ جسٹس شاہدوحید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ جو کچھ ہوا اس کا کوئی حکم نامہ سامنے نہیں آیانہ تو جسٹس امین الدین خان کے بینچ سے الگ ہونے کی تحریری وجوہات سامنے آئیں ہیں اور نہ ہی چیف جسٹس کابینچ کے ٹوٹنے اور مزید سماعت کیسے ہوگی اس سے متعلق کوئی تحریری حکم نامہ سامنے آیا ہے نہ ہی حکم نامہ سامنے آیا ہے نہ ہی فل کورٹ بنا ہے حالانکہ عمران خان بھی فل کورٹ پر راضی نظر آرہے تھے ۔عمران خان نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بینچ ہو یا فل کورٹ ہو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔حکومت بھی عدلیہ سے متعلق متحرک ہوگئی ہے دو دن پہلے وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ان معاملات پر قانون سازی کی بات کی پھر کابینہ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے نام سے ایک مجوزہ بل کی منظوری دے دی۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس کی مزید سماعت29 اپریل تک ملتوی کردی ۔ یہ اشارہ دیا ہے کہ کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل لمبے ہوں گے جبکہ دوسری طر ف جج کو دھمکی دینے کے کیس میں بھی عمران خان کو دوبارہ ریلیف مل گیا ہے۔ بالآخر متعدد سماعتوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آبادہائی کورٹ نے یہ فیصلہ مکمل کرلیاہے کہ ٹیریان وائٹ سے متعلق کیس میں عمران خان کی نا اہلی کا معاملہ قابل سماعت ہے یا نہیں ہے ۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ حکومت نے آج تحریک انصاف کی حکومت کے ایک اور فیصلے کو ریورس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ کیوریٹو ریویوپٹیشن واپس لینے کا اعلان کردیا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ پاکستان پینل کورٹ کا سیکشن 124 ہے جسے عام طور پر بغاوت کا قانون بھی کہا جاتا ہے ۔جس سے پاکستان کی75 سالہ تاریخ میں سیاسی مخالفین، صحافی اور انسانی حقوق کے رہنماؤں کے خلاف بے رحمانہ طور پر استعمال کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک تاریخی اور مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ابوذر نیازی سمیت مختلف شہریوں کی درخواستوں پرمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ۔ پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن124A کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔یعنی اس تاریخی عدالتی فیصلے سے اس ظالمانہ قانون کا خاتمہ ہوگیا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے بار بار استعمال کیا۔ جسے سیاستدان حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس کا دفاع کرتے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں جاتے ہیں یہی قانون انہیں برا لگنے لگتا ہے اور وہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دیتے ہیں۔تحریک انصاف جو آج اس قانون کے خاتمے کو خوش آئند قرار دے رہی ہے وہ اپنی حکومت کے دوران اسے پاکستان کی سیکورٹی کا ضامن قرار دے رہی تھی ۔تحریک انصاف کی حکومت میں سیاسی رہنماؤں سے لے کرنامور صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے گئے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ جب ہمارے پروگرام میں ہم نے نیب چیئرمین کی مبینہ ویڈیواور ملک میں ہونے والے سیاسی انتقام پر سوالات اٹھانا شروع کئے تو جولائی2019ء میں پیمرا نے ہمیں بغاوت کا نوٹس بھیج دیا اس وقت حکومت تحریک انصاف کی تھی۔موجودہ حکومت میں بھی اس قانون کا بے دریغ استعمال کیا جارہا تھا۔2016ء میں ن لیگ کی حکومت نے پیکا کا قانون متعارف کرایااس وقت صحافیوں اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے اس قانون کی مخالفت کی اسے ایک کالا قانون قرار دیا۔عمران خان نے اس کی بھرپور مخالفت کی مگر ن لیگ نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔۔