• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم

رپورٹ : سلیم اللّٰہ صدیقی

تصاویر: اسرائیل انصاری

شرکاء: 

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل (سابق وفاقی وزیرخزانہ)

ڈاکٹر ہمابقائی (ریکٹر MiTE ،سیاسی تجزیہ کار)

آئی ایم ایف چھ بلین نہیں دینا چاہ رہا اس کا پاکستان پراعتماد بہت کم ہوا ہے، پٹرول سبسڈی کی بات پر آئی ایم ایف گھبرا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے جن دوست ممالک سے پیسے ملنے ہیں وہ لائیں اگر نہیں تو ہم تنہا پیسے کیوں دیں، ملک خراب طریقے سے چلایا گیا، سرمایہ دار اور اشرافیہ نے فائدہ اٹھایا، کسی نے لوکل باڈیز کو بااختیار نہیں کیا جب کہ پوری دنیا میں لوکل باڈیز چل رہی ہے، آدھے سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے انٹرنیٹ کے دور میں جو بچہ تعلیم یافتہ نہ ہو اس کا کوئی مستقبل نہیں یہاں جو اچھی انگریزی نہیں جانتا وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل

اگر کسی کو فائدہ ہے تو آئین میں رہتا ہے اگر فائدہ آئین سے ہٹنے میں ہے تو وہ یہ کرلیتا ہے، ہم نے کراچی کے اپنے سیمینار میں ہر شعبہ ہائے زندگی کو موقع دیا تھا اسی طرح ہمیں ہرشخص کو بلا رنگ ونسل جنس کی تخصیص سب کو موقع دینا ہوگا، ہم پہلے سوشل گروپ کے طور پر کام کریں گے، علما کرام بزنس مین ،میڈیا ،سیاسی پارٹیوں ریٹائرڈ بیوروکریٹ ،خواتین کسان اور اقلیتوں سب کو سوچنے کے لیے ساتھ بیٹھنا پڑے گا ، اشیا خوردو نوش مہنگی ہےتوبے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے بڑھائیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پورے ملک کو سبسڈی دیں ،800 اور1000سی سی گاڑی چلانے والا 80فیصد آبادی سے زیادہ امیر ہے، پہلے پیدل سفرکرنے والے کا سوچیں، اپنے سہولت سے آگے نکل کر سوچنا پڑے گا۔

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل

مجھے مرد و عورت جوان،بزرگ طلبا، تاجر ،ملازمت پیشہ روزانہ کما کر کھانے والا غرض ہرطبقہ ہائے زندگی کا فرد ناامید نظر آرہے ہیں سب پاکستان کے حالات سے مایوس ہیں میں اسے سیاست کی بڑی ناکامی سمجھ رہی ہوں،ایسے میں آپ یہ امید کریں کہ سیاست دان ملک کو بحران سے نکالیں گے تو میں خاص پرامید نہیں،

ڈاکٹر ہمابقائی
ڈاکٹر ہمابقائی

میرے خیال میں سول سوسائٹی کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا اور زیادہ کردار بزنس کمیونٹی کو ادا کرنا پڑے گا، کیوں کہ جس معاشی بحران سے پاکستان گزر رہا ہے ان حالات سے صرف بزنس کمیونٹی ہی نکال سکتی ہے، پاکستان کی سیاست ابھی پولارائزڈ ہے پھنسی ہوئی ہے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، ملک میں قیادت کا سنگین بحران ہے، دو جماعتیں جنہوں نے سیاست کو پھنسا رکھا ہے وہ پی ڈی ایم کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں اناکے بھنور میں پھنسی نظرآتی ہیں، سیاست جب بند گلی میں پھنس جائے تونکلنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ نیا مینڈیٹ ہے جس کے لیے عوام کے پاس جانا چاہیے۔

ڈاکٹر ہمابقائی

الیسٹیٹر میکلین کا ناول ہے’’ آئس اسٹیشن زیبرا ‘‘جس کا اردو ترجمہ ’’طوفانوں کی سرزمین ‘‘کے نام سے کیاگیا ہے، آج کے حالات میں ہم پاکستان کو ’’بحرانوں کی سرزمین‘‘ کہہ سکتے ہیں، صورت حال بہت خراب ہے، پارلیمنٹ مفلوج نظرآرہی ہے اور سیاسی جماعتیں کسی کام کی نہیں، فوج ویسے ہی نیوٹرل ہوچکی ہے، عدلیہ کی صورت حال بھی آپ کے سامنے ہے ، آئی ایم ایف کی روزانہ نئی شرائط کاسامنے آنا اور معیشت کی کیفیت سب آپ کے سامنے ہے۔ ایسے میں طرح طرح کے خدشات جنم لے رہے ہیں ظاہر ہے ان سب کے پیچھے کچھ ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے جس کے باعث آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوپا رہا۔

ذہنوں میں ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب آج کےجنگ فورم میں معلوم کریں گے۔ آج ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ہمابقائی۔ سیاست ،معیشت کے ساتھ مہنگائی نے عوام کو ماردیا ہے، مہنگائی کی شرح 40فیصد سے بڑھ گئی ہے، لوگوں کے لیے دووقت کی روٹی کا حصول مشکل ترین ہوگیا ہے، غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملکی صورت حال کیا ہے یہ عام موضوع ہے لہذا ہم کوشش کریں گے کہ آج یہ گفتگو کی جائے اس صورت حال سے کیسے نکل سکتے ہیں اور پاکستان کا مستقبل کیا ہے، ہم اپنی گفتگو کا آغاز ڈاکٹر ہمابقائی سے کرتے ہیں۔

جنگ :پاکستان کی سیاست کہاں جارہی ہے اسے آپ کیسے دیکھ رہی ہیں؟

ڈاکٹر ہما بقائی: میں نے ہمیشہ سنا ہے کہ پاکستان بحران سے گزر رہا ہے، پاکستان نے اپنے مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کرنے ہیں لیکن جو بحران ابھی ہے جو خرابی ہے وہ اس سے کافی زیادہ ہےکیوں کہ اب مجھے مرد و عورت جوان، بزرگ طلبا ، تاجر ،ملازمت پیشہ روزانہ کما کر کھانے والا غرض ہرطبقہ ہائے زندگی کا فرد ناامید نظر آتے ہیں، وہ پاکستان کے حالات سے مایوس ہوگئے ہیں میں اسے سیاست کی بڑی ناکامی سمجھ رہی ہوں،کیوں کہ سیاست ناممکن کو ممکن کرنے کا نام ہے، راستے مشکل پرخطر ہوں اور اس میں محفوظ راستہ نکالا جائے ایسے کام کو سیاست کہا جاتا ہے۔

ہمارے سیاست دانوں نے اپنے جو اسٹیک بنائے ہیں اس نے عوام کوانتشار میں مبتلا کردیا ہے،عوام جمہوریت اور سیاست کا اہم اور لازمی جزوہیں،اس کی فلاح و بہبود اور مستقبل ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے،ان کا مستقبل ہمارے سیاست دانوں کی سوچ میں کہیں اہمیت کا حامل نہیں نظر آتا، زیادہ خطرناک اور پریشانی کی بات یہ بھی ہےکہ آٹھ لاکھ بچہ ملک چھوڑ کر چلاگیا ہے 67 فیصد لوگ ملک کو چھوڑنا چاہتے ہیں، اگر یہ صورت حال ہے تو میرے خیال میں ہم کراس روڈ سے بھی آگے نکل گئے ہیں، ایسے میں آپ یہ امید کررہے ہیں کہ سیاست دان اس ملک کو بحران سے نکالیں گے تو میں خاص پرامید نہیں ہوں، میرے خیال میں سول سوسائٹی کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا اور اس سے زیادہ کردار بزنس کمیونٹی کو ادا کرنا پڑے گا، کیوں کہ جس معاشی بحران سے پاکستان گزر رہا ہےجس کی بارہا نشاندہی کی جارہی ہے ان حالات سے سے صرف بزنس کمیونٹی ہی نکال سکتی ہے،پاکستان کی سیاست ابھی پولورائزڈ ہے پھنسی ہوئی ہے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ملک میں اس وقت قیادت کا سنگین بحران ہے۔

جنگ: اس صورت حال میں سیاست دانوں سیاسی جماعتوں کو آپ کیا مشورہ دیں گی؟

ڈاکٹرہما بقائی: وہ انا کے دائرے سے باہر نکلیںوہ اگر عوام کا نمائندہ کہتےہیں وہ عوام جو آپ کو عزت اور رتبہ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچاتے ہیں ان کا خیال کریں، ابھی ایسالگ رہا ہے کہ صرف ان کی ذاتی انا اورذاتی مفادات ہیں،کرسی بچاو مہم جاری ہے، ان کا اپنا سیاسی سرکٹ ہے جس کے تحت وہ سیاست کھیل رہے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کون سی جماعت ہےجو پاکستان کی عوام سے سنجیدہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے آج کل مسلسل متبادل قیادت کی بات ہورہی ہے چھوٹی سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کررہی ہیں، جماعت اسلامی ابھی بہت فعال نظر آرہی ہے اس کی کراچی میں حمایت 40 فیصد سے اوپر ہوگئی ہے پیپلزپارٹی بھی بہت سرگرم ہوکر کام کرتی نظر آتی ہے،لیکن دو جماعتیں جنہوں نے سیاست کو پھنسا رکھا ہے وہ پی ڈی ایم کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف یہ دونوں جماعتیں انا کے بھنور میں پھنسی نظرآتی ہیں۔

جنگ: قبل ازوقت الیکشن کا کہا جارہا ہے کیا آپ یہ مطالبہ کو ٹھیک سمجھتی ہیں اگر الیکشن وقت پر ہوں تو کیا پاکستان بحران سے نکل سکے گا۔

ڈاکٹر ہما بقائی: یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو کوئی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود الیکشن ہی بحران سے نکلنے کا راستہ ہے، الیکشن میں ہیراپھیری ٹرن آوٹ کم ہونے پرہوتی ہے اگر ٹرن آوٹ زیادہ ہو تو پھر نتائج میں دھاندلی ناممکن ہے میرے رائے میں جب سیاست بند گلی میں پھنس جائے تونکلنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ نیا مینڈیٹ ہےجس کے لیے عوام کے پاس جاناچاہیے۔

جنگ: پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلی کےجلد ہونے والے الیکشن اگلے پانچ سال کے لیے ہوں گے اور پھر عام انتخابات نومبر میں ہوں کیااس طرح کسی نئےتنازعہ کا خدشہ ہے آپ کیا کہتی ہیں؟

ڈاکٹر ہمابقائی: یہ وہ بحث ہے جس میں ہماری سیاست پھنسی ہے،دو میں پہلے اور دو صوبوں میں اس کے بعد یہ آپریشنل ایشوز ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، اصل مسئلہ یہ پاکستان پھنسا ہوا ہے۔ سیاست میں پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے ،جو کہتے ہیں دوصوبوں میں الیکشن پہلے ہوں اور دو کے بعد میں تو اس طرح کوئی نتائج نہیں مانے گا یہ گردان ان لوگوں کی ہے جو فیس سیونگ چاہتے ہیں اور اس میں اپنا مفاد ڈھونڈرہے ہیں۔

جنگ: کیا سیاسی جماعتوں کو نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر ہمابقائی: اس سے پہلے جو چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا تھا پھر جس طرح سبوتاژ ہوا وہ سب کو معلوم ہے، ہم چارٹر آف اکانومی کی بات بھی سن رہے ہیں جب کہ دوسری طرف سیاسی قائدین ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا یہ بیان ہے کہ اب سیاست نہیں دشمنی ہے، عمران خان کہتے ہیں میں کسی سے بات نہیں کروں گااگر آپ میڈیا پر بیٹھ کر ایسے بیانات دیں گے تو آپ کو تو سیاست کے زمرے سے ہی نکال دینا چاہیے۔

جنگ: ابھی پٹرول سبسڈی کی بات ہورہی ہے یہ کیسے ممکن ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل : میرے خیال میں پڑول کی سبسڈی ممکن نہیں ہوگی، سبسڈی کا آئیڈیا یہ تھا کہ مثال کے طورپر 300روپے لٹر پٹرول ہے تو موٹر سائیکل چلانے والوں کو ڈھائی سو روپے میں دیں کیوں کہ 47فیصد پٹرول موٹرسائیکل سوار ڈلواتے ہیں اور باقی جو دیگر لوگ گاڑیوں میں ڈلوارہے ہیں انہیں ساڑھے تین سو روپے میں دے دیں، یعنی ایک طرف پچاس روپے سبسڈی دے کر دوسرے کو مہنگا دے دیا،یہ اسکیم موٹرسائیکل کے لیے شروع کی گئی تھی پھر اس میں رکشے، سوزوکی گاڑی اور سوزوکی کیری بھی ڈال دی گئی، پاکستان بہت غریب ملک ہے ہماری 60فیصد آبادی کے چھ افراد پر مشتمل خاندان کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزارروپے سے کم ہوتی ہے۔

سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں 40ہزار سے کم آمدنی والوں کی تعداد 80فیصد سے زائد ہےاگر آپ سوزوکی گاڑی والوں کوبھی یہ سبسڈی دے رہے ہیں جو 85 فیصد پاکستانیوں سے امیر ہیں، ہماری عوام کی اکثریت بسوں میں سفر کرتی ہے اس لیےاس پر آئی ایم ایف نے سوال اٹھایا ہے،اگر آپ 60 سے 65 فیصد لوگوں کو یہ سبسڈی دیتے ہیں تو باقی کے 35فیصد سے آپ کو ڈبل چارج کرنا پڑے گا تومیرا نہیں خیال یہ اسکیم اس ماحول میں ہوپائے گی۔

جنگ: ہم سارے اقدامات کرچکے ہیں لیکن پھر بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو پارہا آ پ کی رائے میں اس کی کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل : پچھلے دو سال میں تین مرتبہ ہماری حکومتوں نے آئی ایم ایف سے ٹرانس لی ہے اور معاہدے سے ہٹ گئی ہے،پچھلی حکومت میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے معاہدے کیے آئی ایم ایف نے پیسے فراہم کردیئے تو عمران خان نے حفیظ شیخ کو ہٹایا اور شوکت ترین کو لے آئے انہوں نے بجٹ پیش کیا اور آئی ایم ایف کے معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے، معاہدہ سے ہٹتے ہی معلوم ہوا کہ فارن ایکسچینج اور ڈالر پر دباو آگیا ہے، تو انہوں نے فوری جاکر دو ہزار اکیس جولائی سے ستمبر پہلے کواٹر میں ایک بار پھر جاکر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور فروری میں ٹرانس ریلیز کرالی لیکن وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب نے فروری میں معاہدہ دوبارہ توڑ دیا، پیسے ملتے ہی کہا کہ پٹرول، بجلی سستا کررہے ہیں ہمارا جو نقصان ہورہا ہے اسے پھر دیکھیں گے۔

پھر پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت میں میں وزیرخزانہ بنا تو میں نے آئی ایم ایف سے گفتگو کی کہ ہمیں ٹرانس دیں ہم پٹرول ،بجلی گیس کو مہنگا کردیں گے، جب میں وزیرخزانہ بنا تواس وقت حکومت کو ڈیزل 212روپےکا پڑرہا تھا اور وہ اسے 140روپے میں فروخت کررہی تھی،پٹرول 192روپے کا حکومت کو پڑرہا تھا جسے وہ 150روپے فی لٹر فروخت کررہے تھی ،کوئی بھی قرض ہمیں مستقبل میں بہتری کےلیے نوجوان نسل کی بہتری کے نام پر ملتے ہیں اور ہم قرض لے کر چیزیں مزید سستا دے رہے تھے۔ 

ڈاکٹر مہتاب کریم
 ڈاکٹر مہتاب کریم 

ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے اور کہا کہ ہم سستا دینا ختم کریں گے،آپ ہمیں ٹرانس دیں ، ہم پچھلی حکومت کی طرح آپ سے غلط بیانی نہیں کریں گے تو آئی ایم ایف نے ہمیں تیسری مرتبہ ٹرانس فراہم کردی،جیسے ہی یہ ٹرانس آئی تو مجھے ہٹا کر اسحق ڈار آگئے انہوں نے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ 

کوئی شخص دوسال میں آپ سے تین مرتبہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہو اور چوتھی مرتبہ قرض مانگ رہا ہو تو آپ کیاکریں گے یہ ہم سب کو سوچنا چاہیے ،آئی ایم ایف کو جتنے الزام دھر دیں لیکن وہ لینڈر آف لاسٹ ریزورٹ ہے کیوں کہ اب آپ کو کوئی اور قرض نہیں دے رہا۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے آپ کی چھ بلین ڈالر کی کمی آرہی ہے یہ کہیں سے لے آئیں، ایسا انہوں نے مجھ سے بھی کہا تھا جب چاربلین ڈالر کی کمی تھی تو ہم نے سات بلین کا بندوبست کرلیا تھا، لیکن کیوں کہ اب سال کے صرف تین مہینے رہ گئے ہیں تو آئی ایم ایف مطالبہ کررہاہے کہ چھ بلین ڈالرلائیں،سچ یہ ہے کہ آئی ایم ایف چھ بلین اب دینا نہیں چاہ رہا کیوں کہ اس کا پاکستان پراعتماد بہت کم ہوا ہے۔

آئی ایم ایف نے جب بھی کوئی ڈیل کی اس کے سامنے کوئی حکومت یا شخصیت نہیں بلکہ ریاست پاکستان تھی،ابھی تازہ ترین دوبارہ پٹرول کی سبسڈی کی بات کی تو آئی ایم ایف گھبرا گیا ہے۔آئی ایم ایف مطالبہ کر رہا ہے جن دوست ممالک سے پیسے ملنے ہیں یا سرمایہ کاری آئے گی تو وہ لائیں اگر نہیں کرسکتے تو ہم اکیلے پیسے کیوں دیں میری اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف اور ہمارے درمیان تازہ ترین مسئلہ یہی ہے۔

جنگ: کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف ڈیل میں نیوکلیئر اثاثوں کا معاملہ اٹھا ہے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

مفتاح اسمٰعیل : یہ من گھڑت سراسر جھوٹ ہے اس میں کوئی صداقت نہیں،نہ یہ آئی ایم ایف کا مینڈیٹ ہے نہ وزارت خزانہ کا،اس حوالے سے آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ دونوں کا بیان آچکا ہے کہ اس حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر ہما بقائی: ڈی فالٹ کا بڑا ذکر سن رہے ہیں، سری لنکا ڈی فالٹ ہوچکا ہے لیکن اس کے بعد اس کی معیشت ٹریک پر آرہی ہے کیا ڈی فالٹ پاکستان کے لیےبلیسنگ آف ڈس گائزڈ ہوسکتا ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: کچھ لوگوں کی رائے ہے پاکستان کی ری اسٹرکچرنگ کرنی چاہیے، پاکستان پر دو طرح کے قرضہ جات ہیں ایک 32ہزار ارب کا قرض ہے لوکل کرنسی کا، جس پر ہمیں چارسے ساڑھے چار ہزار ارب روپے سود دینا ہوتا ہے دوسرا قرض سوبلین ڈالر کا جس پر ہمیں ڈھائی بلین ڈالر سود دینا ہوتا ہے، سوبلین میں سے پچاس بلین ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہیں ،دس بلین سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات نے ڈیپازٹ کیے ہوئے ہیں اور چالیس بلین ڈالر کے کمرشل لون ہیں جس میں 30 بلین چین کے سی پیک وغیرہ اور دس بلین یورو بانڈ کے کمرشل لون ہیں جسے آپ آسانی سے ادائیگی کی تاریخ میں آگے پیچھے کرلیتے ہیں، سری لنکا کو ایک سال لگا اپنے لون کو قابو کرنے میں لیکن اس کے ساتھ ان کی دس فیصد جی ڈی پی بھی کم ہورہی ہے اگر پاکستان کی دس فیصد جی ڈی پی کم ہوجاتی ہے تو آٹھ ہزار ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے 31بلین ڈالر کا نقصان ہوجائے گاتو ڈی فالٹ حل نہیں ہے ہماری ملک کے جو صاحب ثروت یا اشرافیہ ہیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی اشرافیہ بہت مزے میں ہیں، ہماری اشرافیہ توپھر بن جائے گی وہ غریب لوگ جو پہلے ہی مالی بدحالی کا شکار ہیں،جنہیں واقعی تین وقت کھانا نصیب نہیں ہے وہ دو وقت کھاتے ہیں،ان کے پاس اپنی انتہائی بنیادی ضرورت پوری کرنے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ پاکستانی تو یکدم زندہ درگور ہوجائیں گےتو ہمیں بہت محتاط ہوکر سوچنا پڑے گا۔ 

جہاں تک ڈاکٹر صاحبہ کی بات ہے اس میں وزن ہے ہربحران نیا موقع بھی ساتھ لاتا ہے توابھی جس طرح ہم ملک چلارہے ہیں کہیں ایسا نہیں ہوتا انتہائی بدتر طریقے سے چلایا جارہا ہے۔ ملک کے چالیس اعشاریہ دو فیصد بچے انسٹنٹٹ ہیں، انسٹنٹٹ سے مراد وہ بچےجو اپنی عمر کے مقابلے میں قد کاٹھ زہن میں کمزور ہو تے ہیں اور اس کی وجہ ان کو مناسب خوراک کا نہ ملنا ہے،اس کے بعد 17اعشاریہ سات فیصد بچے ویسٹڈ ہیں،یہ وہ بچے ہیں جن کا قد تو ٹھیک ہوتا ہے لیکن وزن کم ہوتا ہے، اس کی وجہ بچے کےشروع کے چارسال تو خوراک ملی لیکن اس کے بعد نہیں ملی، اس سال سندھ بلوچستان میں سیلاب آنے سے یہاں پرویسٹڈ بچوں کی تعدا دبڑھ گئی ہے، یہ58فیصد بچے ہوگئے، اس کے علاوہ 28اعشاریہ آٹھ فیصد وہ بچے ہیں جنہیں پوری خوراک نہیں ملتی تو 87 فیصد پاکستانی بچوں کو جس خوراک کی ضرورت ہے وہ نہیں ملتی یہ وہ حالات ہیں جس میں لاکھوں بچے بھوکے سورہے ہیں تو یہ ملک خراب طریقے سے چلایا جارہا ہے۔

اس ملک سے سرمایہ دار اور اشرافیہ کس طرح فائدہ اٹھارہے ہیں میں اس کی ایک مثال دے کر بتاتا ہوں، کاروباری سرمایہ دار لوگ کسی بھی حکومت کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے تو سستی بجلی، گیس دے دو تو بہت سے لوگوں کو یہ سستا فراہم کردیا جاتا ہے اور فائدہ اٹھاتے ہیں، مختلف شعبوں میں موجود طبقہ اشرافیہ ایسے ہی بہت سی مراعات لے رہا ہے، پاکستان میں پانچ ائیر لائن ہیں ایک پی آئی اے اور چار نجی ائیرلائن ہیں، ہر ائیر لائن کی کچھ وقت کے وقفے سے کراچی سے اسلام آبادفلائٹ جاتی ہیں، کسی کا کرایہ انیس ہزار ہے تو کسی کا بیس ہزارکوئی اٹھارہ ہزارلے رہا ہوگا ا کرایوں میں ایک ہزار کا فرق ہے،یہ چاروںا ئیر لائن منافع کمائیں گی اور پانچویں سرکاری ائیرلائن پی آئی اے نوے ارب کا خسارہ کرے گی۔

خسارے کے ان پیسوں میں آپ آغا خان یونی ورسٹی اسپتال جیسے ملک مختلف مقامات میں تین اسپتال بناسکتے ہیں ،پی آئی اے پچھلے تیس چالیس سال سے نقصان کررہی ہے لیکن آپ اس کی نجکاری نہیں کررہےکیوں کہ اس کے دس سے بارہ ہزار مستقل ملازم نجکاری نہیں چاہتے، ریلوے ڈسکوز کمپنی ،گیس کمپنی بھی اسی طرح نقصان میں ہیں تو ہمیں اپنی عوام کےاجتماعی مفادکو مدنظررکھ کر فیصلے کرنے پڑیں گے۔

آپ کے دوسے ڈھائی فیصد بچے Oلیول Aلیول کررہے ہوں اور 97اعشاریہ پانچ فیصد بچے نارمل اسکول سسٹم سے جارہے ہوں،آپ کی ٹاپ یونی ورسٹیوں آغاخان ،لمز آئی بی اے میں پڑھنے والے زیادہ بچے Oلیول Aلیول سے آتے ہیں، آپ کا ایک ایچی سن کالج سے آدھے سپریم کورٹ کے ججز آئے ہوئے ہوں تو باقی کے پاکستانی کیا کریں ، یہ عوام سے زیادتی ہے،ان کا کیاقصور ہے۔ تو خدانخواستہ پاکستان میں کوئی بحران آتا ہے تو اس کی وجہ یہاں بنیادی چیزیں ٹھیک نہیں ہیں لہذا مسائل رہیں گے۔

جنگ: موجودہ حکومت میں ن لیگ کی طرف سے وزیرخزانہ بنے لیکن وزارت سے ہٹانے کے بعد پاکستان کا نیاتصور گروپ بنالیا ہےاس کے پیچھے کیا سوچ ہے اور اس کا کیا مستقبل ہے؟

مفتاح اسمٰعیل: میں اور مصطفی نواز جب وزیرتھے تو یہ کوشش اس وقت کی تھی، ہماری خواہش تھی کہ شاہد خاقان عباسی بھی ہمارے ساتھ ہوں،ایک دن ہماری بہت بری میٹنگ ہوئی چار چھ روپے پٹرول قیمت میں اضافے پربہت بحث اور تکرار ہوئی تومیں شاہد خاقان عباسی سے کہتا تھا کہ ہم ملک کےلیے کیا اچھا کررہے ہیں، میرا تعارف صرف یہ رہے کہ میں دومرتبہ وزیرخزانہ رہا ہوں یا میرا تعارف ملک کی بہتری کے لیے نظام میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنے والا ہو، اس صدی میں ملک کے صدر جنرل مشرف ،آصف زرداری رہے، عمران خان، نواز شریف اور دیگر وزیراعظم رہے لیکن پاکستان میں کوئی بہتری نہیں آئی مجھے ان لیڈرز کی نیتوں پرشبہ نہیں لیکن وہ کامیاب یوں نہیں ہوسکے کیوں کہ نظام میں اور گورنس میں خرابی ہے ہمارے نظام میں بنیادی بڑی خرابیاں ہیں، پہلے ملک کا ایک حکمراں اسلام آباد سے نظام چلاتا تھا، اب چار ہیں سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں اگر ن لیگ ہے یاکوئی اور وغیرہ وغیرہ ،لیکن کسی نے بھی لوکل باڈیز کو بااختیار نہیں کیا پوری دنیا میں لوکل باڈیز چل رہی ہے، پچھلے دس سالوں میں صوبوں نے چھ گنا پیسے زیادہ خرچ کئے ہیں، لیکن بہتری نہیں آرہی ،ایک ہزار ارب روپے حکومت سرکاری اسکولوں پر خرچ کرتی ہے لیکن صرف 25فیصد بچہ اسکول جاتا ہے، مجموعی طور پر آدھے سے زیادہ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے ،تو اس انٹرنیٹ کے دور میں جو بچہ پڑھا لکھا نہ ہو اس کا کیا مستقبل ہوگا یہاں تو جو اچھی انگریزی نہیں جانتا وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اوباما کا باپ امریکا سے چلاگیا تھا،بل کلنٹن کے باپ الکحولک تھے، رونلڈ ریگن کے والد جوتے فروخت کرتے تھے جبکہ ہمارے یہاں کیا ایسا ممکن ہے،میں ایک اور مثال دوں آپ ایک گھوڑے کا اصطبل خریدتے ہیں، پھر اپنے مینجر سے پوچھتے ہیں کہ تم جو گھوڑا بھیجتے ہو وہ ریس میں آخری نمبر میں آتا ہے تم کوئی اور گھوڑا کیوں نہیں بھیجتے،ہم بھی ہر سال ایک ہی گھوڑا بھیج رہے ہیں جو آخری نمبر پر آرہا ہے تو کوئی اور گھوڑا کیوں نہیں بھیج رہے،ایک آسان سا طریقہ ہے اپنے سارے گھوڑوں کی ریس کرائو جو سب سے زیادہ تیز ہو اسے ریس میں بھیجو، تو منیجر نے کہا ہم تو اسی کو بھیجتے ہیں جسے پہلے سے بھیج رہے ہیں۔

تو اسی طرح ہم اپنے پورے پاکستان کے بچے کو موقع دیں تو ٹیلنٹ کے نتائج بہت اچھے نکلیں گے ہم تو صرف ایک فیصد بچوں کو موقع دے رہے ہیں جو ایچی سن اور کراچی گرامر کا طالب علم ہے۔ ہمارے یہاں اگر کسی کو فائدہ ہوتا ہے تو آئین میں رہتا ہے اگر فائدہ آئین سے ہٹنے میں ہے تو وہ یہ کرلیتا ہے کسی نے پاکستانی بچوں کی بات نہیں کی،ہم نے کراچی میں اپنا سیمینار رکھا تو اس میں ہر شعبہ ہائے زندگی کو موقع دیا تھااسی طرح ہمیں ہرشخص کو بلا رنگ ونسل جنس کی تخصیص سب کو موقع دینا ہوگا۔

جنگ: یہ سارے کام بغیر حکومت کے نہیں ہوسکتے تو نئی جماعت بنائیں گے حکومت میں آئیں گےکیا کریں گے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: ہم پہلے سوشل گروپ کے طور پر کام کریں گے،رمضان میں لاہور میں ایک بڑا پروگرام کرنے جارہے ہیں جس میں سب کو دعوت دیں گے، اسلام آباد میں ہم بھی کوشش کریں گے پاکستانی سیاست میں فوج کی دلچسپی اور بڑا کردار ہے، عدلیہ کی دلچسپی اور کردار ہے چاہے وہ جسٹس منیر کے زمانے میں مارشل لا کو قانونی قراردے دیا تھا یا ابھی کہا کہ ہم لیجسلیٹرز کاووٹ ہی نہیں مانتے کیوں کہ انہوں نے جس کو ووٹ دیے وہ انہیں پسند نہیں تھے۔

علما کرام بزنس مین میڈیا کے لوگوں کوسیاسی پارٹیوں کوریٹائرڈ بیورو کریٹ، خواتین کسان اور اقلیتوں سب کو اس میز پر بیٹھنا پڑے گا اور سوچنا پڑے گا کیوں کہ جس طرح ہم پاکستان کو چلارہے ہیں یہ درست طریقہ نہیں ہے، کسی دوسرے الزامات دیتے رہیں لیکن ہمیں کبھی نہ کبھی سوچنا پڑے گا کہ ہم پاکستان کے ساتھ کیا کررہے ہیں، میں پرامید ہوں سب کے ساتھ بیٹھنے سے دباؤ بنے گا،اور کم از کم لوگ اب ہماری بات سن رہے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک دبائو بنارہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا ہم اپنا موازنہ کوریا سے ویت نام سےتھائی لینڈ سے بھارت سے بنگلا دیش سے کرتے تھے اور پانچ سال بعد ہم افغانستان سے کررہے ہوں گے یہ ہم نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے۔

جنگ: موجودہ مہنگائی کی بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہے یہ سنبھل نہیں رہا قابو آنے کے کوئی امکان ہے آپ کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟

مفتاح اسمٰعیل: ڈالر کی ضرورت کی بنیادی وجہ کو ٹرانزیکشنل ڈیمانڈ ڈالر کہتے ہیں، مثال کے طورپر مجھے غیرملکی ملک پاوڈڑ خریدنا ہے ،باہر سے آنے والا گاڑی کاپرزہ خریدنا ہے تو میں بینک جاتا ہوں اور پاکستانی روپے دے کر کہتا ہوں آپ باہر بیٹھے میرے بائیر کو ڈالر اداکردیں اسے ایل سی کہا جاتا ہے جس کے ذریعے یہ کام ہوتا ہے، پچھلے سال ہم 80ملین کا ایکسپورٹ کرنا تھا تو ہمیں 80ملین ڈالر کی ضرورت تھی، توجب پاکستانیوں کو یہ لگا کہ پاکستان ڈی فالٹ ہوجائے گا تو پھر دوسری طرح کی طلب سامنے آئی ہے، اسے کیپیٹل فلائیٹ کہہ لیں، ہولڈنگ کہہ لیں یا افواہوں کا نام دیں، تو پھر ڈیمانڈ آف ڈالر آگئی تو طلب بڑھ گئی اسی وجہ سے سیکنڈری مارکیٹ میں ڈالر نہیں ملتا، پاکستان میں ڈیفالٹ کا رسک بڑھنے سے لوگوں نے ڈالر ہولڈ کرنا شروع کردیا ہے پہلے لوگوں کے دو اسٹو ر آف ویلیو ہوتے تھے وہ زمین اور دوسرا سونا خریدتے تھے سونا بھی ڈالر سے جڑا ہوتا ہے، پاکستانیوں نے زمینیں خریدنا کم کردی ہیں آج کل اس کی قیمتیں کم ہیں اور پاکستانی ڈالر خرید رہا ہے،ڈالر کی ڈیمانڈ کم اور دوپے کی بے قدری کیسے رکے گی جب ڈی فالٹ کا خوف ختم ہوگا اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر ٹرانس آجائے گا تھوڑا سا استحکام آئے گا۔پچھلے سال 80بلین ڈالر کی درآمدات اور صرف31 بلین کی برآمدات ہوئی تھی۔اور تیس بلین ریمی ٹینس سمندر پارپاکستانیوں سے آیا تھامجموعی طور پر 61بلین ڈالرکی ہماری آمدنی تھی اور 80بلین کے اخراجات تھے۔ 

جب اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہو تو اسی تناسب سے قیمت بنتی ہے، اور یہی ٹھیک طریقہ ہے،ڈالر سستا کرنے کا مطلب امپورٹ کو سستی کرنا یعنی امپورٹڈ گاڑیاں سستی ہوجائیں گی اب اگر امپورٹڈ چیزیں سستی ہو ں گی لیکن ڈالر کہاں سے آئے گا وہ آپ کو کہیں نہ کہیں سے سبسیڈائزڈ کرنا پڑے گا کیوں کہ آپ نے زبردستی ڈالر سستارکھا ہے تو پھر آپ ڈالر ادھار لیں گے وہ ادھار مستقبل میں ادا کرنے ہیں، یعنی پانچ سال یا تین سال بعد لیکن پھر وہ پیسے کیسے آئیں گے، پچھلے 75 سالوں میں یہ کئی دفعہ کرچکے ہیں ۔لیکن اب ادھار لے کر سبسیڈائزڈ امپورٹ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔

پچیس ہزار آمدنی والا غریب ترین آدمی ہے اس کے اخراجات بڑے محدود بنیادی ضرورت کےہوتے ہیں وہ سبزی دال تیل گوشت اور کچھ بنیادی ضرورت پر خرچ کرتا ہے، زیادہ آمدنی رکھنے والوں کو گاڑیاں گھڑیاں اور آئی فونز خریدنے ہوتے ہیں اسے برانڈ ڈ غیرملکی اشیا خریدنی ہوتی ہے، ڈالر کی قیمت نیچے رکھنے کا مطالبہ مڈل اور اپر مڈل کلا س کا ہے ملکی آبادی کا بڑا حصہ غریب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں غریب کے کھانے پینے خوراک کو سستا اور رعائیت بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے چاہے وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ہویا کسی دوسرے پروگرام سے، جس بچے کو رات اور صبح کھانا نہ ملےاسے کوئی نہیں پڑھا سکتا۔

جنگ: آپ کچن باسکٹ کی بات کررہے ہیں آج کل سب سے مہنگی وہی ہے، اشیاخوردو نوش ریکارڈ سطح پر مہنگی ہے، آبادی کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے ،ریاست کتنے لوگوں کی مدد کرسکتی ہے عوام کی بڑی تعداد کو کیسےاشیا خوردو نوش سبسڈائزڈ دے سکتے ہیں؟

مفتاح اسمٰعیل: ہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ساڑھے تین سوارب روپے دیتے ہیں ،پچھلے سال 240ارب تھے میں نے اپنے بجٹ میں آتے ہی اس میں پچاس فیصد اضافہ کیا کرکے360ارب کیا تھا لیکن کچھ لوگوں کو یہ بہت برا لگتا ہے کہ وہ کہتے ہیں پیسے دے کر عوام کو بھکاری بنایاجارہا ہے، ہم نے دو ہزار بیس کوویڈ کے زمانے میں پاکستان کے امیر ترین لوگوں کو570ارب روپے ایک فیصدٹیرف پرلون پر دیا تھا وہ کسی کو برا نہیں لگا،اگر اشیا خوردو نوش مہنگی ہے توبے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے بڑھائیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پورا پاکستان سبسیڈائزڈ کریں ۔

ڈاکٹر ہما بقائی: آپ ٹارگٹڈ سبسیڈی کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں تو آٹھ سو سی سی سے لے کر ہزار سی سی تک کی چھوٹی گاڑی والا بھی مہنگے پٹرول پر پریشان ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: آٹھ سو اور ہزار سی سی گاڑی چلانے والا پاکستان کی 80فیصد آبادی سے زیادہ امیر ہے، ہمیں پہلےمزدوری کےلیے پیدل چل کر جانے والے پاکستانی کا سوچنا پڑے گا، ہمیں اپنے سہولت سے آگے نکل کر سوچنا پڑے گا۔

جنگ فورم کو اوپن کرتے ہیں۔

شریک خاتون: آپ نے کہا تھا کہ دانش اسکول سے سالانہ دس سے بیس ہزار بچوں کو لےکر پرائیوٹ اسکولوں میں داخلہ دیا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:طبقہ اشرافیہ کے بچے بہترین تعلیم حاصل کرتے ہیں ان بچوں کچھ ذہین اور اکثر نارمل ہوتے ہیں اگر ہم پاکستان کے ہرتحصیل ضلع جاکر تیس چالیس ہزار بچے چن کر ان کا ٹیسٹ لیں اور پھر انہیں پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں تعلیم دی جائے تو اس سے پاکستان کو زیادہ بہترین ٹیلنٹ میسر ہوگا اب اگر اس میں دوسو یا تین سو ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں تو خرچ کرنا چاہیے اپنے بہتر مستقبل کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہیے، سرکاری اسکول ختم کردینے چاہیں اورحکومت جو اخراجات اسکولوں پر کررہی ہے سندھ اور کے پی میں چالیس ہزارروپے فی بچہ، بلوچستان میں ساٹھ ہزار فی بچہ اور پنجاب میں 32ہزار روپے فی بچہ حکومت ان پیسوں کا بچوں کو واوچر دے وہ جہاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں وہ حاصل کریں،جس گائوں گوٹھ میں پرائیوٹ اسکول نہیں ہیں وہاں اسکول بورڈز سے والدین کوشامل کرلیں والدین بھلے سے پڑھے لکھے نہ ہوں لیکن وہ کوشش کریں گے کہ استاد روز آئے اور پڑھائے، اسکول حکومت چلائے گی لیکن ٹیچر کو رکھنے اور نکالنے کی اتھارٹی والدین کے پاس ہوگی۔

شبر زیدی
شبر زیدی

شبر زیدی: خصوصاًپچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہمارے معاشی حالت مسلسل خرابی کی طرف جارہے ہیں نہ عوام نہ حکومت کی طرف سے کوئی کوشش نظر نہیں آرہی حکومت مدد کے لیے کبھی آئی ایم ایف کبھی چین توکبھی امریکا کا حل ڈھونڈ رہی ہے، مثال کے طور پر ہم سب جانتے ہیں مشکل ملکی معاشی حالات ہیں لیکن حکومت کےکہنے کے باوجود دن کی توانائی کے زیادہ استعمال کے بجائے رات گئے دکانیں کاروباری مراکزکھلے ہوئے ہیں،جو کچھ بھی اقدامات ہیں وہ حکومت کررہی پاکستان میں معاشرتی بے حسی کیوں ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: پاکستان میں غریبوں کا ایک بہت بڑا سمندر ہے جسے ہم اپنے معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ،آج کل روز مجھے کوئی نہ کوئی بلاتا ہے کیوں کہ پہلی مرتبہ معاشی بحران اتنا سنگین ہے اپرمڈل کلاس بھی دباو محسوس کررہا ہے۔ لیکن آپ ان ڈرائیور اور ماسیوں کا سوچیں جن کی پچیس ہزار ماہانہ آمدنی ہے،آپ ان 60فیصد پاکستانیوں کا سوچیں جن کی چھ افراد پر مشتمل خاندان کی آمدنی 35ہزار تک ہے انہیں تو 75سال سے ان حالات کی عادت ہے،وہ تو تین وقت کے کھانے کا تصور نہیں کرسکتے ان کےلیے یہ حالات نئے نہیں یہ تو آپ ہم لوگوں کےلیے نیا ہے، 1960 سے 1970 کے دوران مشرقی پاکستان میں اوسطاً آمدنی مغربی پاکستان کےمقابلے میں آدھی تھی جو 1970 تک آدھی سے بھی کم ہوچکی تھی۔ لیکن مغربی پاکستان سے آواز نہیں اٹھی کہ یہ ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائیوں سے زیادتی ہے تو وہ علیحدہ ہوگئے۔آج ہمیں سب پاکستانیوں کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

ڈاکٹر آصف شمیم
ڈاکٹر آصف شمیم

ڈاکٹر آصف شمیم: پاکستان دنیا کے ان دس ٹاپ ملکوں میں ہیں جو آئی ایم ایف کے پیکجز پر ہیں اور جولوگ بھی آئی ایم ایف کے پیکج پر گئے ہیں وہ بدحالی کا شکار رہتےہیں، پاکستان کی بدحالی کی ایک وجہ آئی ایم ایف بھی ہے، چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کےلیے پاکستان ایک سو ایک ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا ہے تو یہ کس قسم کی مالی پالیسی ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بدحالی کا شکار نہیں ہوتا، پاکستان بدحال ہوتا ہے تو آئی ایم ایف پاس جاتا ہے ،اگر ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو پھر کیا کریں گے اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنی معیشت ٹھیک چلائیں توہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا لیکن یہ بات بھی ٹھیک ہے ملک وہی ترقی کرتا ہے جو آئی ایم ایف سے دور ہوتا ہے لیکن اس کےلیے ہمارے بنیادی معاملات ٹھیک ہونا ضروری ہیں۔

ہندوستان کے امیر ترین لوگ ہمارے لوگوں سےبہت آگے ہیں ہمارے امیرکے پاس دو بلین ڈالر ہیں تو وہاں پچاس بلین تک ہوتے ہیں، اگر ملک ترقی کرے تو پاکستانی امیر زیادہ امیر ہوجائیں گروتھ صرف غریب کو چاہیے، ہمارے یہاں جب نوکری کی بات ہوتی ہے چار سیٹ ہیں اور دس افراد ہیں تو پھر قوم پرستی شروع ہوجاتی ہے سندھی پنجابی مہاجر بلوچی پٹھان سب کہتے ہیں یہ میرا حق ہے شیعہ سنی لڑائی نظرآتی ہے، حالانکہ اصل لڑائی اشرافیہ اور غیر اشرافیہ کے درمیان کی ہے ہم اس پر اب تک نہیں آئے، جب یہ سمجھ میں آجائے گی تو وہ غریب آدمی رحیم یار خان میں رہتا ہو یا کراچی یا کوئٹہ یا کہیں اورایک ہیں اور یہ لڑائی ہمیں ایک مرتبہ کرنی پڑے گی لیکن اس کے لیے ہمیں لسانی اور مذہبی جھگڑے سے نکل کرسوچنا پڑے گا۔

سعود: موجودہ حالات میں ہمیں سرمایہ کاری کہاں کرنی چاہیے؟

ڈاکٹر ہمابقائی: نوجوانوں کا ا پنی صلاحیتیں بڑھانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: ابھی زمین پر نہیں کرنی چاہیے باقی کہیں بھی کرلیں۔پاکستان غریب اور چھوٹا ملک ہے آ پ دنیا میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں،آپ اپنی کمپیوٹرصلاحیتیں بڑھا کردنیا سے منسلک کئی کاروبار کرسکتے ہیں۔

فاروق: آپ نےحکومت میں رہ کر غریب آدمی کو اپنی کونسی پالیسی سے فائدہ پہنچایا اور کون سی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کا افسوس ہےدوسرا وہ کون سی قوت ہے جو سیاسی جماعتوں کو عرصہ دراز سے لڑا رہی ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 240ارب روپے سے بڑھا کر 360ارب روپےکیا،جس میں 60لاکھ سے 80لاکھ خواتین کو وظیفہ دیا اور جب سیلاب آیا تو180ارب روپے سے سیلاب متاثرہ خاندان کو پچیس ہزار نقد 48 لاکھ خواتین کودیے تھے۔اس پالیسی میں کچھ میرابھی ہاتھ تھا۔

پاکستان میں 22 لاکھ دکان دار میں سے صرف 30ہزاردکان دار ٹیکس دیتے ہیں تو میں نے ان پر تین ہزار روپے کا ٹیکس لگایا تین ہزار کا مطلب روز کے سو روپے،لیکن اس کے بعد مجھے بڑے سیاسی دبائو کا سامنا کرنا پڑا آج میں شاید ایک اس وجہ سے بھی آپ کے سامنے بیٹھا ہوں دوسرے سوال کا جواب جب کسی اور کو نہیں پتا تو میں کیا بتاوں۔

نعمان: آپ نظام میں تبدیلی کی بات کررہے ہیں یہ شروع کہاں سے ہوگا اور کہاں جائے گا،دوسرا یہ کس نظام کی بات کررہے پارلیمانی ہے یا کوئی اور؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: آپ کوئی بھی کا م کرنا چاہیں وہ غیر جمہوری نہیں ہونا چاہیےکسی آمرانہ نظام سے نہیں ہونا چاہیے ،پاکستان نے مارشل لا اور پارلیمانی دونوں نظام کو دیکھ لیا ہے ہر نظام ناکام رہا ہے اس کا مطلب یہ مسئلہ نہیں ہے،ضرورت کے مطابق آئینی تبدیلی کی جائیں

انیلا: میں وہ طالب علم ہوں جو اپنی محنت سے جگہ بنارہےہیں لیکن مجھے ملک میں اپنا مزیدمستقبل نظر نہیں آرہا تو ہمیں آپ کیا مشورہ دیں گے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: پاکستان کی بڑی بدقسمتی ہے کہ ذہین افرادبہتر مستقبل کے لیے تیزی سے دوسری ملک منتقل ہورہے ہیں برین ڈرین مناسب نہیں، ہونا تو یہ چاہیے آپ جیسے ذہین نوجوانوں کو پروفیشنل زندگی کا یہیں سےاچھا آغاز ملے باقی آپ کو جواچھی آفر لگے اسے آپ کو استعمال کرنا چاہیے۔

زاہد فاروق
زاہد فاروق

زاہد فاروق: ابھی دو اکانومی کی دنیا ہے ایک آئی ایم ایف اور دوسرا چین ہم سی پیک کے ذریعے چین سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو کیا اس طرح ہم کامیاب رہیں گے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: ہم چین اور مغرب دونوں کو نہیں چھوڑ سکتے لیکن ہمیں چین اور امریکا محاز آرائی سے دور رہنا چاہیے، توازن میں رہنا چاہیے لیکن یہ بہت مشکل ہے ہمیں انڈیا سے سیکھنا چاہیے وہ دونوں سے بات چیت کرلیتا ہے۔

ایڈوکیٹ نبیہ حسن: ایک سال پہلے والی میری ا ایک لاکھ تنخواہ آج تیس ہزار ہوگئی ہے تو خدانخواستہ آگے کیا ہوگا؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: افراط زر بہت بڑھ گیا ہے میرے خیال ہے اب تنخواہیں اچھی خاصی بڑھنی چاہیے حکومت کوکم ازکم تنخواہ بڑھانی چاہیے اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈزیعنی تاجروں صنعت کاروں کے ساتھ بیٹھیں تاکہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہرشخص کی تنخواہیں بڑھائی جاسکیں۔

سرمد شاہ: ہمارے سیاستدانوں کی اچانک یہ خواہش کیوں ہورہی ہے کہ ملک کےلیے کچھ اچھا ہو اس سے پہلے یہ خاموش کیوں تھے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: آپ کسے ووٹ دیں یہ آپ فیصلہ کریں لیکن میں لشکری رئیسانی کے متعلق سوچنے کا کہوں گا۔

وقارحسین: ہم 75 سالوں میں کمانا نہیں سیکھ سکے دوسروں پر انحصار کب تک کریں گے؟

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: ہمارا یہی المیہ ہے ان 75سالوں میں 71سال خسارہ اور صرف چار سال سرپلس بجٹ رہا ہے ابھی آپ پر100بلین ڈالر قرض ہے اس کے 20 بلین واپس کرنے ہیں جب کہ واپس کرنے کےلیے ایک بھی پیسہ نہیں ہے یہ بیس بلین کسی ایک سے قرض لے کر دوسرے کو دیں گے دنیا آپ کو قرض دے کر تھک چکی ہے تو ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانی پڑے گی،ایک کروڑ پاکستانی باہر رہتا ہے جس میں پچاس لاکھ پیسے بھیجتے ہیں جو بیس بلین ڈالر ہیں اور باقی جو ملک میں کروڑوں پاکستانی مل کر کام کررہے ہیں وہ صرف تیس بلین کمارہے ہیں توجب تک ہم اپنی ایکسپورٹ نہیں بڑھائیں گے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اپنی معاشی بہتر کرنے کےلیے نجکاری کی طرف جانا پڑےگا بچوں کا پڑھانا پڑے گا سب بچوں کو برابر مواقع فراہم کرنے پڑیں گے تاکہ پاکستان آگے بڑھ سکے۔

نصیرا: آپ نے اپنے دور حکومت میں غربت پر توجہ ہی نہیں دی پچھلی حکومت کی تین برس کی مانیٹری پالیسی میں اس کا ذکر ہی نہیں اس پر غور ہی نہیں کیا تو پھر کسی پالیسی سے جلد بہتری آجائے گیَ۔

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: آئی ایم ایف کہہ رہا ہے آپ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک سے پیسے لیں اب دیکھتے ہیں وہ پیسے دیتے ہیں کہ نہیں،ملک میں غربت کی وجہ ہماری اپنی پالیسی ہیں اور ابھی بھی کوئی غربت کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کررہا۔

عثمان: ہم اپنے صوبہ بلوچستان کو بہت زیادہ نظر انداز کررہے ہیں ؟

ڈاکٹر ہمابقائی: پاکستان ابھی سنگین بحران میں گھرا ہے۔

جنگ: جس ملک میں 75برسوں میں یہ ہی طے نہیں ہوا ملک کا حکمراں کون ہوگا وہاں مسائل پر رونا وقت ضائع کرنا ہے، پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس ملک کا حکمراں کون ہوگا،ہم 26سال بعد آئین بناتے ہیں اس آئین کو ہم نے موقع نہیں دیا کہ وہ جاری رہے،سیاسی جماعتیں بناتے ہیں اس کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں اور گالیاں پڑتی ہیں حقیقی سیاسی جماعتوں کو جس کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جمہوریت کو گالیاں پڑتی ہیں جسے پورا موقع ہی نہیں دیا گیا، پہلے آپ کو یہ بات کرنی پڑے گی اپنا حق حکمرانی طے کرنا پڑے گا اس کے بعد مسائل کی بات کریں گے لوگ شاید درست کہتے ہیں کہ14 اگست 1947 کو بھارت آزاد ہوا تھا پاکستان میں ٹرانسفر آف پاور ہوئی ابھی تک آزاد نہیں ہوا ہے۔