• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
روٹی مانگی تھی کہ صحت بنے گی، زندہ رہنے کا سامان ہوگا، زندگی آگے بڑھے گی، زندگی جب آگے بڑھے تو اسے آغاز سفر کہتے ہیں۔ یہ روٹی ہی تو ہےجو ہر امیر و غریب کو توانائی بخشتی ہے۔ صحت یاب ہوکر انسان پھر بھاگ دوڑ شروع کر دیتا ہے۔ روٹی ہی کیلئے رازق سے رزق کی دعا کی جاتی ہے، روٹی ہی کیلئے جدوجہد کی جاتی ہے۔ یہ روٹی ہی تھی کہ جس کیلئے آدم و حوا سر جوڑ کربیٹھ گئے۔ سوچا کہ گندم ہی بوئی جائے زمین پر کھیت ترتیب دیئے گئے، زمین کھود کر اس میں آسمان سے اترا ہوا گندم کا دانہ بودیا گیا۔ گندم تیار ہوئی تو پیسنے کیلئے چکی بھی وجود پا گئی پتھروں کے دو پارٹ ملا کر اسے بنایا گیا اور یوں آٹاپیسا اور روٹی بھی تیار ہوئی۔ چکی کے یہ دو پاٹ اسی لئےترتیب پائے تھے کہ انسان مسائل کے کئی مخمصوں میں پھنس کر یا پھر چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ جائے۔ویسے کیا برا تھا کہ آسمان سے اترا من و سلویٰ ہی ہماری خوراک ہوتا تو نہ گندم، نہ چکی اور نہ ہی کھیت کھلیان کی تردد کرناپڑتی۔ نہ ہی گندم کی روٹی کھانے کو پورا عالم تڑپ رہا ہوتا۔ پکوان بھی طرح طرح کے ہوتے۔ شائد پھر اس من وسلویٰ میںگندم کا گزر ہی نہ ہوتا۔ وہ پکوان ہی اور طرح کے ہوتے جہاں یہ نہ کہنا پڑتا اور کوئی دکھ درد بھی نہ سہنا پڑتا، جہاں نہ کوئی مسلا جاتا، نہ کوئی روندا جاتا، نہ کوئی کچلا جاتا اور نہ کہیں کسی کو مجبوری میں موت آتی کہ کہنا یوں نہ پڑتا
بھیک میں بھی کہیں ملی روٹی
کی ہے پندار سے ادا قیمت
کچھ لوگ اپنے پندار کو مجروح کرتے ہیں تو کچھ لوگ نفس کو! کچھ انا کوفنا کرتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی جان کو! کچھ کو غیرت مارنا پڑتی ہے تو کچھ کوشرم، کچھ کو روٹی کھینچنا پڑتی ہے کچھ کو چھینا جھپٹی میں جان گوانا پڑتی ہے۔ بھوک اور مہنگائی سے تڑپتی، واویلا کرتی قوم آخر مذہب، دین دنیا بھول کر صرف اور صرف پیٹ کی خاطر اوربھوک مٹانے کی خاطر ہر قسم کے گرم و سرد ٓآندھیوں سے گزر کر، نرم و گرم سی ہوائیں چھوڑ کر آٹے کے تھیلے سرکرنے کو پہنچتے ہیں مگروہاں کی بھیڑو بھگدڑ میں روندے جاتے ہیں۔ گندم کھانے کی ایسی ہی سزا ملنا تھی تو اےخدا، گندم کا دانہ آسمان سے آیا ہی کیوںتھا؟ اسکی جھلک کیوں دیکھی تھی اس مخلوق نے، کیوں زندگی کا محوربنا بیٹھے یہ لوگ! کیا آٹے ہی کو زندگی کا مقصد بنانا تھا کہ اسی سے لذت لب ودہن کی تسکین ہوگی باقی نعمت خداوندی کی اہمیت انسان کو کیوں نہیں شائد غریب اسے ہر قسم کی لذت سے اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ اسے کسی بھی چکنے سے چپڑ کرکھالو، اچار سے کھالو، چٹنی سے کھالو، مرچ سے کھالو، پانی سے کھالو ، دودھ سے کھالو، دہی سے کھالو، گوشت سے کھالو،پینری سے کھالو، دال سے کھالو، سبزی سے کھالو! غرض یہ روٹی کسی بھی چیز سے ملا کر نہ بھی کھائو توبھی اسکی اہمیت و افادیت پرانسان کی نظر میں نہایت اہم ہے اور پیٹ کی ضرورت بھی۔ یہ روٹی کسی بھی مذہب کے قید میں نہیں، یہ روٹی شرک سے پاک ہے، یہ روٹی امرا کی اسیر ضرور ہے کہ غریب کو اسے اپنی بھوک مٹانے کو کھینچنا پڑتا ہے، اور اس مہینےمیں کھینچنا پڑتا ہے جب روزے رکھے جاتے ہیں اور بھوک و پیاس سے لوگ اسے لینے کو بھیڑو بھگڈر میں گھس جاتے ہیں کہ جیسے زندگی کا تمام سفر انہیں آٹے کےتھیلوں پر گزرے گا۔ جنہیں حاصل کرنے میں ان کی زندگی کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔آٹے و روٹی کے حکمرانوں نے اسے بانٹنے کو کیسا وطیرہ اختیار کیا کہ رزق کو افراتفری، بھیڑبھگڈر اور موت کے کنویں کی نذر کردیا۔ کیا تھا اگر طریقے سے گھر گھر پہنچا دیا جاتا تو رضاکاروں اور رفاعہ عامہ کے کام کرنے والوں کے ہاتھوں تو اتنی جانوں کا زیاں نہ ہوتا۔ کوئی ماں نہ مر رہی ہوتی، کوئی بات نہ مر رہا ہوتا، کوئی بزرگ اور جوان نہ مر رہے ہوتے۔ اس مفت کے آٹے کے اسیروں کیلئے آپ نے انہیں بھیڑ میں بھگڈر کی صورت میں جمع کیا اور پھر قیدیوں کے دروازوں کیطرح دروازے ان پرکھول دیئے کہ جیسے وہ رہائی پاکر بھاگتے چلے جائیں ایک دوسرے کو روندتے ہوئے۔ شاعرہ شگفتہ ہاشمی نے اس درد کو ان الفاظوں میں پروکر کیا خوب عکاسی کی ہے۔ ان کےاشعار ملاحظہ کیجئے کہ
بھوکے بچوں کے پیٹ کی خاطر
مفت آٹے کی بھیڑ میں پھنس کر
ہار دی جان باپ نے آخر
پہلے روتے تھے صرف روٹی کو
عمر بھر باپ کو بھی روئیں گے
دیکھ لیجئے کہ کیا حالت ہوئے جاتی ہے اس روٹی کی خاطر کہ مسلمان ہی مسلمان کو مارے ڈالتا ہے۔ روٹی کو کس قدر اہمیت حاصل ہوگئی کہ لوگ قربانیاں دینے لگے اسکی خاطر!یعنی روٹی خواہشات کا نام ہوگیا انسان کی اور اسکے چاہنے والے بے پناہ!کہتے ہیں کہ جو فساد روٹی خور آدم کرتا ہے، گوشت خورشیربھی نہیں کرتا۔ کہتے ہیںکہ یہ روٹی بھی عجیب چیز ہے۔ دنیاوی ترقی کیساتھ ساتھ کئی تبدیلیاںآگئیں مگرروٹی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آدمی بھلے ترقی کرتا جائےمگرروٹی اس کی ضرورت ٹھہری۔ آج مائیں وہ سین دیکھ کر رو رہی ہیں کہ اس کے کمانے والے بیٹے کی میت آٹےکے تھیلوں کے پاس ہی پڑی ہےمگراب یہ کس کام کی روٹی اور آٹا کہ جس نے گھر کےوارث کی جان ہی لے لی۔مائیں بھی بچوں کی روٹی کیلئے جان سے گئیں اب فکر کون کرے گا۔
یورپ سے سے مزید