ماسکو/نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارتی افواج طویل عرصے سے روسی ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان پر بہت زیادہ انحصار کرتی رہی ہیں اور یہ صورتحال جلد تبدیل ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن 2022ء میں روس کی یوکرین میں شروع کی جانے والی فوجی کارروائی کے بعد سے روس اپنی افواج کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاملے میں جدوجہد کر رہا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اس کے اسلحے اور گولہ بارود کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دہائی کے باقی ماندہ عرصہ کے دوران روس برآمدی ضروریات پوری نہیں کر پائے گا جس سے اس کے سب سے بڑے صارف یعنی بھارت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس صورتحال کا فوری اثر یہ ہوگا کہ بھارت میں روسی ساختہ دفاعی ساز و سامان کم ہو جائے گا، بھارتی ذخائر میں اسلحے کی کمی سے اس کی آپریشنل صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے بھارتی حکومت کو درپیش اہم چیلنج کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران اس کی تمام تر توجہ چین کے جارحانہ رویے کا مقابلہ کرنے کے ساتھ پڑوسی ملک پاکستان کشیدگی کو کم رکھنے پر مرکوز رہی ہے۔ روس یوکرین جنگ سے قبل، بھارت ہتھیاروں کے حصول کیلئے کئی ملکوں سے رابطے کر رہا تھا اور اس شعبے میں تنوع لا رہا تھا جس میں زیادہ تر توجہ ملکی سطح پر اسلحے کی پیداوار پر دی جا رہی تھی۔ لیکن بھارت کے پاس روس کے فراہم کردہ فوجی ساز و سامان کی تعداد و مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ بھارت کی کوششیں بار آور ہونے میں زیادہ وقت لگے گا۔ اس دوران، بھارت کو پہلے سے ہی روس کی جانب سے فراہم کردہ ساز و سامان کی مینٹیننس اور فاضل پرزہ جات کی ضرورت ہے۔