• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئی اسپورٹس پالیسی برسوں سے مسلط عہدے داروں سے جان چھرانے کا منصوبہ

ملک میں 2005 کے بعد نئی قومی اسپورٹس پالیسی کی منظوری دے دی گئی ہے جو2027 نافذ رہے، اس پالیسی میں پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی خود مختاری کو برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ کھیلوں کی فیڈریشنوں پر برسوں سے موجود بابا جیسے عہدے داروں سے جان چھڑانے کے لئے عہدے دار کی عمر کی حد 70سال کردی گئی ہے جس سے فیڈریشنوں کے پرانے عہدے دار زیادہ متاثر ہوں گے، جبکہ فیڈریشنوں کے عہدے داروں کی معیاد بھی چار سال سے کم کرکے تین سال کردی گئی ہے، نئی اسپورٹس پالیسی میں پی او اے انٹرنیشنل مقابلوں میں کھلاڑیوں کی شرکت کو یقنی بنانے میں پہلے کی طرح اپنا کردار ادا کرتی رہے گی تاہم کھیلوں کی قومی فیڈریشنز کے صدور، سیکرٹری، خزانچی کی مدت کودوٹرم تک محدود کردیا گیا ہے، 4 سال پر مشتمل ٹرم کو اب کم کرکے 3 سال کردیا گیا ہے۔

عہدیدار پر عمر کی پابندی بھی لاگو کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ 70 سال یا اس سے زیادہ عمر والا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوگا، نئی اسپورٹس پالیسی کے تحت فیڈرل اسپورٹس کوآرڈینیشن کمیٹی قائم کی گئی ہے جو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کھیلوں کی فیڈریشنوں کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی، کمیٹی میں کھیلوں سے متعلق وفاقی وزیر ( سربراہ) کے علاوہ کھیلوں کے امور نمٹانے والےوفاقی سیکرٹری (ممبر) جبکہ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان،ڈی جی پی ایس بی اور تمام صوبوں کے وزرائے کھیل شامل ہوں گے۔

نئی پالیسی میں پاکستان اسپورٹس بورڈ کے اختیارات میں اضافہ ہوا جبکہ صوبائی اسپورٹس بورڈ بھی اپنے دائرے کار میں رہتے ہوئے کھیلوں کی صوبائی ایسوسی ایشنوں کے مسائل کے حل اور ان کی کار کردگی پر نگاہ رکھے گے۔صوبائی اسپورٹس بورڈز گرانٹس فراہمی، انفراسٹرکچر اور ڈویلپمنٹ کے ذمہ دار ہوں گے، خؤاتین اور ٹرانس جینڈرز کے کھیلوں کے فروغ پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔

خواتین کی کھیلوں کی تنظمیوں میں نمائندگی کے ساتھ ان کی بین الاقوامی کھلیوں میں بھی شمولیت میں اضافہ کیا جائے گا۔ اسپورٹس پالیسی پر مختلف کھیلوں کی فیڈریشنوں نے تحفظات کا اظہارکردیا ہے، ان کا موقف ہے کہ عہدے کی مدت میں کمی، عمر کی حد 70 سال مقرر کرنے اور انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن بنانے سے عالمی فیڈریشن کے قوانین کی خلاف ورز ی ہوگی جس پر ہمارے سے جواب طلبی ہوسکتی ہے، مختلف فیڈریشنوں نے نئی پالیسی کو اعلی عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کرتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر زور دیا ہے۔ 

اس حوالے سے پی او اے کے ایک ذمے دار عہدے دار نے اس نمائندے کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے پی او اے کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسپورٹس پالیسی کے حوالے سے جو خدشات اور تحفظات ہیں اسے پاکستان اسپورٹس بورڈ اور وزارت کے ساتھ مل کر بہتر کیا جائے گا، تاہم وزارت نے پالیسی کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ، اس بارے میں وزارت کے علاوہ وزیر اعظم ہائوس سے بھی رابطہ کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب پی ایس بی کے حکام کا موقف ہے کہ عالمی سطح پر فیڈریشنوں کے عہدے داروں کے لئے عہدے کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے تاہم عمر کی حد کئی فیدریشنوں میں70سال مقرر ہے،ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے قیام سے متوازی فیڈریشنوں کے قیام کی حوصلہ شکنی ہوگی، انتخابات میں ہر فیڈریشن اپنے ایشیائی اور عالمی فیڈریشنوں کے نمائندوں کو بھی مدعو کرسکتی ہیں۔ 

فیڈریشنوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا قیام حکومت کی جانب سے اپنے من پسند افراد کو اعلی عہدوں پر لانے کے پروگرام کا حصہ ہے۔ نئی پالیسی کے تحت ہر صوبہ اپنے متعلقہ صوبائی اسپورٹس بورڈ کے ذریعے صوبائی ایسوسی ایشنز کے معاملات کی نگرانی کرے گا۔ اور کھیلوں سے متعلق سرگرمیوں کے لیے کھیلوں کا بجٹ مختص کرے گا۔صوبے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کھیلوں کی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے تحصیل، ضلعی اور ڈویژنل سطح پر اپنے کھیلوں کے دفاتر بنائے جائیں۔ 

صوبائی حکومتیں ضلعی اور تحصیل کھیلوں کے خالی دفاتر کو میرٹ پر پُر کرنے کو یقینی بنائیں گی، صوبائی ا سپورٹس بورڈ متعلقہ کھیلوں کی صوبائی ایسوسی ایشنز کو تسلیم کرے گا اور ان سے الحاق کرے گا اور انہیں صوبائی سطح کے ٹورنامنٹس، تربیتی کیمپوں کے انعقاد میں سہولت فراہم کرے گا اور انہیں ضروری سالانہ فنڈز فراہم کرے گا۔ وہ ضلعی اور ڈویژنل سطحوں پر جزوی اکائیوں کا مکمل ریکارڈ بھی برقرار رکھیں گے۔ صوبائی حکومتیں بھی الیکشن کمیشن کی مدد کریں گی۔

صوبائی ا سپورٹس بورڈ تحصیل اور ڈسٹرکٹ آفیسرز کو اسپورٹس کلبوں اور ڈسٹرکٹ کو رجسٹر کرنے کی ہدایات جاری کرے گا،پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فیڈریشنوں کو مکمل طور پر حکومتی گرانٹس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے اور انہیں اسپانسرشپ، یا مارکیٹنگ کے ذریعے اپنے فنڈز خود پیدا کرنے چاہئیں۔ فیڈریشنز کو زیادہ سے زیادہ خواتین کو کھیلوں میں شامل کرنا چاہیے۔ 

پی او اے سے کہا گیا ہے کہ وہ ملکی قوانین کی تعمیل،اور حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کرے ، پی او اے کے لیے میعاد کی کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ یہ براہ راست آئی او سی کے تحت آتا ہے، ایک فیڈریشن کے عہدے دار کوکسی اور فیڈریشن یا ایسوسی ایشن کا عہدے دار بننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم اسے بین الاقوامی فیڈریشنز یا ایسوسی ایشنز میں بغیر کسی پابندی کے عہدہ رکھنے کی اجازت ہوگی۔ متوازی فیڈریشن بنانے کے رجحان کو یکسر ختم کیا جائے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید