• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں، الاؤنسز ظاہر نہیں کی جاسکتیں، رجسٹرار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ کے ججوں کی ماہانہ تنخواہوں اور الاؤنسز کو رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کے تحت پبلک نہیں کیا جا سکتا ہے .

 رجسٹرار کے مطابق سپریم کورٹ ”پبلک باڈی“ کے زمرے میں نہیں آتی۔27 مارچ کو جیو فیکٹ چیک نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کو ایک خط لکھا جس میں رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر ججوں کو دی جانے والی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔

دوسری جانب جیو فیکٹ چیک نے اس حوالے سے متعدد وکلاء سے رابطہ کیا۔ تمام وکلاء رجسٹرار آفس کے جواب سے متفق نہیں تھے اور انکی رائے ہے کہ ان معلومات کو پبلک کیا جانا چاہیے۔

جیو فیکٹ چیک کو 5 اپریل کو عدالت کے اسسٹنٹ رجسٹرار ایڈمن خرم شہزاد کی جانب سے جواب موصول ہوا۔ خرم شہزاد نے جواب میں لکھا کہ معلومات کی درخواست کو ”پورا نہیں کیا جا سکتا“ کیونکہ یہ ایکٹ کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن کے تحت صرف ”پبلک باڈی“ کے پاس موجود ریکارڈ تک رسائی ممکن ہے۔ اسسٹنٹ رجسٹرار نے لکھا کہ ”اگرچہ ایکٹ 2017 میں ’پبلک باڈی‘کی تعریف بہت جامع ہے، اس کے باوجود مقننہ نے اپنی حکمت میں اس عدالت کو مذکورہ تعریف کے دائرے میں شامل نہیں کیا اور اسے ایکٹ کے دائرہ کار سے خارج کر دیا ہے۔“

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 ایک ”پبلک باڈی“ کو حکومت اور ریاستی اداروں اور ”وفاقی قانون کے تحت کوئی بھی عدالت، ٹریبونل، کمیشن یا بورڈ“ کے طور پر وضاحت کرتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید