لندن (پی اے) آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال جی20میں شامل دنیا کے 20 سب سے بڑی معیشتوں کے حامل ملکوں میں، جن میں پابندیوں کا شکار روس بھی شامل ہے، برطانیہ کی معاشی کارکردگی دنیا میں سب سے زیادہ خراب رہے گی۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس سال اگرچہ برطانیہ کی معیشت اس کی پہلی پیشگوئی کے مقابلے میں کچھ بہتر ہوگی لیکن معیشت اس سال سکڑ جائے گی۔ آئی ایم ایف نے رواں سال کو عالمی مالیاتی نظام کیلئے مشکلات کا سال قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف اس سے قبل پیش گوئی کرچکا ہے کہ اس سال برطانیہ کو مندی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ دنیا کی7نام نہاد سب سے بڑی اور جدید ترین معیشتوں والے ملکوں کے گروپ G7کی نچلی ترین سطح پر آجائے گا۔ گزشتہ سال کورونا کے خاتمے کے دوران برطانیہ ان ملکوں میں سب سے اوپر تھا۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ برطانیہ کی معاشی شرح نمو سکڑ کر 0.3 رہ جائے گی اور اگلے سال بڑھ کر ایک فیصد پر آجائے گی۔ آئی ایم ایف کے ریسرچرز اس سے قبل گیس کی قیمتوں میں اور سود کی شرح میں اضافے اور تجارتی مندی کو اس کی کمزور معیشت کی وجہ قرار دیا تھا۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی بتایا تھا کہ مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے لیکن اس کی پیش گوئی ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ چانسلر جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہماری شرح نمو کو G7 کے کسی بھی دوسرے ملک سے بہتر قرار دیا ہے اور آئی ایم ایف اب کہہ رہا ہے کہ معاشی شرح نمو کیلئے ہم درست سمت جا رہے ہیں۔ اس پلان پر قائم رہتے ہوئے ہم اس سال افراط زر کی شرح نصف کرلیں گے، جس سے ہر ایک پر سے دبائو کم ہوجائے گا لیکن لیبر پارٹی کے شیڈو چانسلر راکیل ریوز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیش کردہ تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی منظر نامے پر ہم کتنا پیچھے جاچکے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے کیونکہ ٹوری پارٹی کی حکومت کے 13 سالہ دور حکومت کے دوران کم شرح نمو کی وجہ سے ہماری معیشت کمزور ہوچکی ہے اور فیملیز کا برا حال ہے، وہ ٹوری پارٹی کی مارگیج کی شرح کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ان کا معیار زندگی تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی سے گر تا جا رہا ہے۔ لبرل ڈیموکریٹ کی خزانے سے متعلق ترجمان سارہ اولنے نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی معیشت پر کنزرویٹو حکومت پر ایک اور بدنما داغ ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ اس سال برطانیہ میں مندی کے رجحان میں کمی آنا شروع ہوجائے۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلی نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ وہ معیشت کے حوالے سے بہت پر امید ہیں اور معیشت فوری طورپر مندی کا شکار نہیں ہوگی لیکن آئی ایم ایف کا عالمی سطح پر بینکنگ کی مارکیٹ کی خراب صورت حال پر بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے، اب آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ عالمی سطح پر معاشی شرح نمو، جو گزشتہ سال 3.4 فیصد تھی، رواں سال 2.8 فیصد تک رہے گی، جس کے بعد اس میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہوگا اور اگلے 5 برسوں میں یہ شرح 3 فیصد پر آجائے گی لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے متنبہ کیا ہے کہ اگر مالیاتی سیکٹر پر مزید دبائو پڑا تو عالمی شرح نمو اور بھی کم ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اسے امید ہے کہ شرح سود اس طرح مقرر کی جائے گی، جس سے افراط زر پر قابو پایا جاسکے۔ فی الوقت برطانیہ، امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک کے مرکزی بینک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں یعنی افراط زر کی شرح کو کم رکھنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں افراط زر کی شرح گزشتہ 40 سالہ تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر ہے کیونکہ انرجی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر بینک آف انگلینڈ شرح سود میں اضافہ کررہا ہے اور گزشتہ ماہ اس نے شرح سود میں 4.25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ تاہم ایک بلاگ میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حال ہی میں مقرر کی جانے والی شرح سود ہی اصل شرح سود لیکن یہ عارضی ہے۔