اسلام آباد (مہتاب حیدر) سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے انعقاد کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو 21 ارب روپے کی رقم جاری کرنے کی ہدایت کو اختیار پر کنٹرول کے طور پر سمجھا گیا ہے جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت فنانس ڈویژن کے پاس ہے۔
کابینہ اور وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی رضامندی کے بغیر وزارت خزانہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری اور جاری نہیں کر سکتی جس کے لیے بعد ازاں قومی اسمبلی کی پوسٹ فیکٹو (قانون جس کا اطلاق زمانہ ماقبل سے ہو) منظوری درکار ہے۔
پی ایف ایم ایکٹ 2019 واضح طور پر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کی تحویل کے عنوان کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کا آپریشن وفاقی حکومت کی مجموعی نگرانی کے تحت فنانس ڈویژن میں کام کرے گا۔
اب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فاضل اٹارنی جنرل اور فنانس کی ٹیم کی مدد سے عدالت نے ان فنڈز کی تقسیم سے متعلق آئین کی متعلقہ دفعات کا بھی جائزہ لیا۔
وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 84 کے مطابق وفاقی حکومت 30.06.2023 کو ختم ہونے والے متعلقہ مالی سال کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے دیگر امور کے ساتھ ساتھ ’’کچھ نئی خدمات پر اخراجات جو سالانہ بجٹ کے بیان میں شامل نہیں ہے‘‘ کے اخراجات کرنے کی مکمل طور پر مجاز ہے۔