• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کو دوسروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کو ایک ہی وقت میں ہائی کورٹس، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار میں تجاوز کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ 

سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے حالیہ ’’اختلافی‘‘ نوٹس میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پنجاب، کے پی کے انتخابات پر سپریم کورٹ کے سوموٹو نے صوبوں میں ہائی کورٹس کی آزادی کو نقصان پہنچایا۔ 

چیف الیکشن کمشنر نے شکایت کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے کمیشن کے اختیارات ختم ہو گئے ہیں؛ پارلیمنٹ نے بھی سپریم کورٹ کو قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا آئینی اختیار چھینتے ہوئے پایا جبکہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کی ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت پر بھی برہم ہے۔ 

اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے لکھا : ’’اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی درخواستوں کی اجازت دے چکی ہے اور مستند فیصلہ دے چکی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے پر پشاور ہائی کورٹ بھی آگاہ ہے۔ 

اوپر بیان کئے گئے ضروری ’مددگار اصولوں‘ کی روشنی میں درخواستوں اور سوموٹو دائرہ اختیار پر غور نہیں کیا جانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ یہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر التواء کارروائی میں مداخلت کرے۔ 

اس مرحلے پر اس عدالت کے سامنے قبل از وقت اور پیشگی کارروائیوں سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے نفاذ میں تاخیر ہونے کا امکان ہے جس سے مذکورہ مجوزہ مقررہ وقت کی حد سے تجاوز کر کے آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ یہ بات میرے فاضل بھائیوں سید منصور علی شاہ، یحییٰ آفریدی اور جمال خان مندوخیل، جے جے کی آراء سے بھی ظاہر ہے جنہوں نے بھی درخواستیں خارج کر دیں اور اس بنیاد پر یعنی ایک ہی معاملہ دو مجاز ہائی کورٹس میں زیر التوا ہے۔ 

مزید یہ کہ ہائی کورٹس کے فیصلوں سے متاثرہ کسی بھی شخص کے پاس آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت عدالت کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔ زیر غور کیس کے حقائق اور حالات میں ضروری مددگار اصولوں سے انحراف کرنا حقیقی طور پر غیر معمولی معاملہ نہیں ہے۔ 

درخواستوں اور سوموٹو دائرہ اختیار پر غور کرکے عدالت بلا جواز طور پر دو صوبائی ہائی کورٹس کی آزادی کو مجروح کرے گی۔ اس مرحلے پر غیر ضروری اقدام قبل از وقت ہوگا اور اس سے اس عدالت کی آزادی اور غیر جانبداری پر عوام کے اعتماد کو غیر ضروری طور پر مجروح کیا جائے گا۔ 

اس عدالت کے پاس یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہائی کورٹس آئین کے دفاع اور تحفظ کے لیے کم اہل ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے حالیہ خط میں نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ اور 5 اپریل کے فیصلوں نے یہ طے کرنے کیلئے ای سی پی کو اس کے آئینی اختیارات سے محروم کر دیا ہے کہ آیا حقائق اور حالات میں ایک مقررہ وقت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 218(3) میں درج معیارات پر پورا اترنے کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔ 

سی ای سی نے یہ بھی تذکرہ کیا کہ انتخابی ادارے نے قانون کی رٹ، مناسب برتاؤ اور میرٹ کو صحیح معنوں میں برقرار رکھنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ تاہم انہوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ کمیشن کی رٹ کو کئی مواقع پر منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ عملی طور پر ای سی پی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ پارلیمان کی جانب سے اس کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کے مستقبل کے قانون پر روک لگانے کے فیصلے پر پارلیمنٹ پریشان ہے۔ 

قومی اسمبلی نے چند روز قبل ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آٹھ رکنی بنچ کا حکم آئین اور قانون کے منافی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ عدالتی اصلاحات بل پر عمل درآمد کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنا پارلیمانی امور میں مداخلت ہے۔ عدالتی حکم کو ملک کی عدالتی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب قرار دیتے ہوئے قرارداد نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے آئینی اختیار کو چھیننے کی سپریم کورٹ کی جارحانہ کوششوں کو سختی سے مسترد کر دیا۔ 

قرارداد میں کہا گیا کہ نہ اس اختیار کو (قانون سازی کا) غصب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی کو بھی دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔اس میں کہا گیا کہ بجٹ، مالیاتی بل، اقتصادی معاملات اور وسائل کے اجراء کی منظوری یا نامنظور کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ 

پارلیمنٹ کے اس اختیار کو کوئی نہیں چھین سکتا، معطل یا منسوخ نہیں کر سکتا۔ حکومت بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے جسے ایگزیکٹو اپنے ڈومین میں مداخلت کے طور پر دیکھتا ہے۔ 

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو 21 ارب روپے ای سی پی کو منتقل کرنے کی ہدایت پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ برہم ہوگئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اب سپریم کورٹ براہ راست ایگزیکٹو کے اختیارات کو سنبھال رہی ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اب سپریم کورٹ کو بجٹ بھی بنانا چاہیے۔

اہم خبریں سے مزید