کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ان جیسے بدنیت لوگ پاکستان کی سیاست میں کبھی نہیں آئے ،وہ پارلیمنٹ کی دہلیز پر مذاکرات کے لیے آئے ہیں میں تو باہر بیٹھا ہوں،عمران خان کے بیانات مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے ، میں نے اگر اختلافی بیان دیا تو عمران خان کیا کررہے ہیں،مذاکرات کو قطعی سبوتاژ نہیں کرنا چاہتا،جب تک سہولت کاری کے ذریعہ سیاست میں مداخلت کی جائے گی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ تمام اداروں کوا اپنی حدود کے اندر واپس جانا ہوگا، سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ میں تو آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا عمل بہت لیٹ ہوگیا ہے، اچھی بات ملناچاہئے حکومت اور اپوزیشن میں رابطہ ہے تو ان کو بات چیت کرنی چاہئے،پروگرام میں سینئر تجزیہ کار حسنات ملک اور ریما عمر نے بھی اظہار خیال کیا۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ میں قطعی طور پر سبوتاژ نہیں کرنا چاہتا، ہم لوگ سیاستدان ہیں یا سیاسی ورکر ہیں، ہم لوگ صلح و صفائی کے ساتھ اپنے معاملات حل کرنے کی سیاسی روایت پر یقین کرتے ہیں، روز یہ چیز ہم اپنے حلقوں میں کرتے ہیں مختلف لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کرواتے ہیں لیکن آپ دیکھیں میں نے اختلافی بیان دیا یا میرے چند ساتھیوں نے اختلافی بیان دیا تو عمران خان کیا کررہا ہے، وہ کہہ رہا ہے اگر سولہ مئی یا چودہ مئی سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی تو یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا، گن پوائنٹ پر یہ باتیں نہیں ہوں گی اگر عمران خان گن پوائنٹ پر باتیں کرے گا تو اس کا جواب وہی ہے جو میں دے رہا ہوں یا میرے ساتھی دے رہے ہیں، بالکل اسی طرح کا جواب ملے گا۔ یہ پوزیشن وہ باہر لے کر گئے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ سب سے بڑی سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اس قسم کے بیان جب آپ ڈائیلاگ کرنے جارہے ہوں ، میٹنگ روم میں داخل ہورہے ہوں تو آپ اس قسم کے بیان دیں، میں تو باہر بیٹھ کر دے رہا ہوں وہ تو مذاکرات کا حصہ ہیں، وہ تو خود پارلیمنٹ کے دروازے پر، دہلیز پر آئے ہیں مذاکرات کرنے اور اس قسم کے جب وہ بیان دیں گے پھر جو میں مذاکرات کے باہر بیٹھا ہوا ہوں مجھے پورا حق ہے میں جو مرضی کہوں اور میں نے کہا ہے اور پھر کہوں گا، جتنے بدنیت یہ لوگ ہیں سمیت اپنے لیڈر کے پاکستان کی پچھتر سالہ سیاست میں اتنے بدنیت قسم کے لوگ سیاست میں نہیں آئے۔ آپ دیکھیں صبح کچھ کہتا ہے شا م کو کچھ کہتا ہے، ایک سال میں آپ نے گن گن کر اس کو سنایا ہوا ہے کہ ایک سال میں تم نے کیا کہا اور کس پر کھڑے رہے، یہ بیرونی سازش کہتے تھے یہ صاحب جو کہہ گئے ہیں میں سبوتاژ کررہا ہوں یا مریم نواز کا میں گڈکوپ بندہ ہوں یا میں سبوتاژ کررہا ہوں اسی بیرونی سازش کو اپنے گھر بلالیا تھا، دانت اس طرح نکل رہے تھے کہ ان کے گھر پتا نہیں کون سی ہستی آگئی ہے اور کون سا ان کے گھر پر نزول ہوگیا ہے کہ اتنی خوشیاں منائی جارہی ہیں، یہ کیا لوگ ہیں ان کی کوئی زبان ہی نہیں ہے، ان کی کوئی شناخت نہیں ہے، سوائے فراڈ کے اور کیا شناخت ہے؟۔ گڈ کوپ بیڈ کوپ نہیں میں جو کہہ رہا ہوں خلوص کے ساتھ کہہ رہا ہوں، اس سارے معاملات کا پچھلے تین چار سال سے اس ملک میں جو سیاست چلی ہے میں اس کا نتیجہ نکال کر کہہ رہا ہوں، مجھے یہ بتائیں یہ لوگ جو مذاکرات کررہے ہیں ان کو خود یاد نہیں کہ کتنی پارٹیاں انہوں نے بدلی ہوئی ہیں، ان کو خود یاد نہیں ہے، ان کا کون کون لیڈر رہا ہوا ہے ان کو خود یاد نہیں ہے ، آج ان کا پرویز الٰہی لیڈر ہے صدر ہے ان کی پارٹی کا اس کو ڈاکو کہتے تھے،ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات بھی الرٹ ہوکر کرنا چاہئیں، یہ باہر جاکر کچھ کہتے ہیں اندر کچھ کہتے ہیں، اب یہ بھی چودہ مئی کی بات کر کے گئے ہیں، ان کے لیڈر نے بھی چودہ مئی کی بات کی ہے، ہم اس طرح مانیں گے جس طرح ہماری کنپٹی پر گن پوائنٹ کر کے ہم سے منوائیں گے؟ قطعی طور پر نہیں مانیں گے، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہم چودہ مئی والی بات مانیں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پی ڈی ایم کی کوئی پارٹی یہ بات نہیں مانے گی۔ ان کو پوچھیں باہر چودہ مئی کہتے ہو اندر جاکر کیا بات کرتے ہو، اندر جاکر کچھ اور ترلے کرتے ہیں۔ جو عمران خان کے بارے میں کہتے ہیں وہ بھی بتائیں کہ عمران خان کے بارے میں اندر جاکر کیا کہتے ہیں۔ میں دعاگو ہوں نتیجہ نکلے ۔ پالیٹکس میں ٹینشن ملک کیلئے اچھی بات نہیں ہے، جس طرح عدلیہ اپنا سیاسی رول ادا کررہی ہے وہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے، عمران خان بغیر کسی سہولت کار کے ایک دن سیاست میں نہیں کاٹ سکتا۔ پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری۔ پوچھیں ان کی سیاست میں شناخت کیا ہے۔ میری شناخت ہے نا۔ میری ساری عمر میری دو جنریشنز مسلم لیگ کے ساتھ گزری ہیں، میری شناخت ہے، ان کی کیا شناخت ہے۔جب تک سہولت کاری کے ذریعہ سیاست میں مداخلت کی جائے گی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ تمام اداروں کوا اپنی حدود کے اندر واپس جانا ہوگا۔ ان کو اپنے ادارے کی پاورز بے شک انجوائے کریں جو آئین میں لکھی ہوئی ہیں چاہے وہ پارلیمنٹ ہے، عدلیہ ہے، فوج ہے، ایگزیکٹو ہے، ضرور انجوائے کریں ان کا حق بنتا ہے لیکن جب وہ اپنے ادارے سے نکل کر دوسری باؤنڈریز کو ٹریس پاس کرتے ہیں اس وقت یہ گند پڑجاتا ہے ، یہ گند پڑا ہوا ہے اس کا سامنا کریں، جب تک اس چیز کو ہیڈ آن نہیں لیں گے آپ کے پرابلمز نہیں حل ہوسکتے، آپ گرے ایریاز میں رہ کر چاہتے ہیں آپ کے پرابلمز حل ہوجائیں؟ نہیں ہوں گے۔ آپ کے پرابلمز جب حل ہوں جب آپ بلیک اینڈ وائٹ کے اندر آجائیں گے جو آئین کہتا ہے اس کی پابندی کریں گے۔