کراچی (رفیق مانگٹ) پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دور بھارت پر غیر ملکی میڈیا نے بھارتی رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ اس نے دونوں ممالک کے مابین برف پگھلنے کی امید کو ختم کر دیا.
بھارت میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنا پاکستان کے مفاد میں تھا، سربراہی اجلاس پاک بھارت مفاہمت کے بارے میں نہیں تھا، دونوں ممالک رواں اور آئندہ برس پارلیمانی انتخابات میں جا رہے ہیں .
لہذا ایک دوسرے پر سخت الزامات ان کی اپنی عوام کے لئے تھے، بلاول دورے کے بارے محتاط تھے،کیونکہ سیاسی حریف عمران خان کی پارٹی نے پہلے ہی ان پر "کشمیر کاز" پر سمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا تھا.
اگر پاکستان میں کسی بھی حکومت نے بھارت کے ساتھ بات چیت کا انتخاب کیا تو اسے اندرون ملک ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، کچھ طاقتیں دونوں ممالک کے درمیان امن کے کسی بھی امکان کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں.
ہندوستانی وزیر خارجہ کے سخت الفاظ کے باوجود پاکستانی تاجر برادری پر امید ہے کہ تجارت دوبارہ شروع ہو جائے گی،انتہائی الزامات کا مطلب یہ امکان ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف جولائی میں رہنماؤں کی سربراہی اجلاس کے لیے بھارت کا دورہ نہیں کریں گے۔
بلاول کے دورہ بھارت پر امریکی،برطانوی ،جرمن اور بھارتی میڈیا نے تفصیلی تجزیے لکھے .
امریکی نشریاتی ادارے’’وائس آف امریکا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ہر فریق نے دو طرفہ مسائل پر ایک دوسرے پر پردہ ڈالا۔ ولسن سینٹرکے مائیکل کوگل مین کا کہنا ہےکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا کوئی دوسرا رکن نہیں ہے جس پر پاکستان تنقید کرے سوائے اس کے حریف کے۔
لہذا یہ فرض کر سکتے ہیں کہ اگر وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر کسی پر تنقید کر رہا ہے، تو وہ ہندوستان ہی ہوگا، انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو "سلور لائننگ" قرار دیا، جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں نے افغانستان کے بارے میں بھی ایک جیسا ہی موقف پیش کیا۔
کوگل مین نے کہا کہ بھارت میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنا پاکستان کے مفاد میں تھا جہاں اس کے اتحادی چین نے اہم کردار ادا کیا تھا، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ان کا دورہ بھارت مفاہمت کی کوشش کی پہلی آواز ہوگی۔کشیدگی کے باوجود، بھٹو زرداری نے میزبان کے طور پر جے شنکر کی تعریف کی، اور کہاکسی بھی موقع پر جے شنکرنے مجھے یہ محسوس نہیں کرایا کہ ہمارے دو طرفہ اختلافات کا اس کانفرنس پر کوئی اثر پڑے گا۔
برطانوی اخبار’ انڈی پینڈینٹ‘ لکھتا ہے پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے پر بھارت کے سخت رویے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں برف پگھلنے کی کسی بھی امید کو ختم کر دیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات مسترد کر دی۔ یہ دورہ سرحدی تلخ تعلقات کے درمیان مفاہمت کے آثار کے لئے قریب سے دیکھا جا رہا تھا۔
جے شنکر نے پاکستان پردہشت گردی کے الزامات لگا کر تنقید کی، وزراء کے درمیان شدید بیانات نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی پہلے سے ہی مدھم امید کو فوری طور پر ختم کر دیا جس کو ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے لیے ایک اہم موڑ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئر فیلو سوشانت سنگھ نے بتایا کہ گوا میں دونوں ممالک کا رویہ حالیہ برسوں سے واقف خطوط پر تھا، ایک دوسرے تک پہنچنے کے بجائے اپنے متعلقہ ملکی سامعین کو متاثر کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا تھا۔
اگرچہ بیک چینل بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، جس نے 2021 میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی اجازت دی، دونوں ممالک کی سیاسی قیادت اپنے ملکی سامعین کو بھیجے جانے والے پیغام کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔
تعلقات میں کسی بھی طرح کے پگھلنے کی امیدیں کم ہیں کیونکہ دونوں ممالک کو اگلے ایک سال میں عام انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لہذا اس اجلاس نے صرف اس بات کی تصدیق اور تقویت دی ہے جو پہلے سے معلوم اور متوقع تھا۔واشنگٹن ڈی سی میں واقع ولسن سنٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ بھٹو زرداری کا دورہ پاکستان ہمیشہ چین اور شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی ایشیائی ممبران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر مرکوز رہا.
حالانکہ یہ تقریب بھارت میں ہونے کے باوجودجے شنکر اور بھٹو زرداری کے درمیان لفظوں کی بدصورت جنگ، جو کہ مکمل طور پر پیشین گوئی کی جا سکتی تھی، اس بات کی یاد دہانی تھی کہ یہ سربراہی اجلاس کبھی بھی پاک بھارت مفاہمت کے بارے میں کیوں نہیں تھا،یہ کسی بھی ملک کے نقطہ نظر سے اس کے لئے وقت اور جگہ نہیں ہے۔
جرمن خبر رساں ادارہ’ ڈی ڈبلیو‘ کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ حریفوں کے درمیان مستقبل میں بات چیت کی بنیاد رکھ سکتا تھا۔
پیچیدہ مسائل کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ کے بھارت جانے کے فیصلے کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک کھو جانے والا موقع تھا۔بھٹو یقینی طور پر اپنے سفر کے مضمرات کے بارے میں محتاط تھے، کیونکہ ان کے سیاسی حریف عمران خان کی پارٹی نے پہلے ہی ان پر "کشمیر کاز" پر سمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ہندوستان یقینی طور پر پاکستان کے لیے "دوستانہ ملک" نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوئے۔نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے ریسرچ فیلو امیت رنجن کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کے لیے اپنے ہندوستانی ہم منصب جے شنکر سے براہ راست ملاقات کا وقت درست نہیں تھا۔
ملاقات کے لیے سازگار ماحول کی عدم موجودگی تھی۔جب تک ایسا سیاسی ماحول نہیں بنایا جاتا، ہندوستان اور پاکستان کو بات چیت میں شامل دیکھنا مشکل ہے۔ یہ فی الحال ایک ضائع ہونے والا موقع ہے۔ اگر پاکستان میں کسی بھی حکومت نے بھارت کے ساتھ بات چیت کا انتخاب کیا تو اسے اندرون ملک ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہندوستان ایس سی او میں پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے خواہاں نہیں تھا۔ پاکستان کے تجزیہ کارمشرف زیدی کا کہنا کہ یہ دورہ مصروفیت کا موقع نہیں تھا کیونکہ بھارت مسلسل پاکستان کو سزا دینے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
رنجن نے کہااس وقت، اپنے معاشی حالات کی وجہ سے، پاکستان کو ماضی کے مقابلے ہندوستان کی زیادہ ضرورت ہے۔ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات محدود لیکن اہم دوطرفہ تعلقات کے دروازے کھول سکتے ہیں۔
ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی الجھن دو طرفہ مصروفیات کے لیے مناسب اور مناسب ماحول فراہم نہیں کرتی۔ بھٹو کے دورے سے کوئی مفاہمت نہیں ہو گی۔
پاکستان میں سابق ہندوستانی ہائی کمشنر اجے بساریہ بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں بھٹو اپنے بھارت کے دورے سے مزید کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دورہ مکمل طور پر غیر ضروری نہیں تھا۔
سابق ہندوستانی سفیر برائے پاکستان نے اس نظریے کی بازگشت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے دورے سے کوئی دوطرفہ ٹیک وے ہونے کا امکان نہیں ہے اور اسے صرف SCO کے تناظر میں ہی ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی دیکھتے ہیں۔
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس لکھتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم کی وزارتی سطح پرراجوری واقعہ نے پاک بھارت مذاکرات کے امکانات ختم کئے ،11 سالوں میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ، دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کوئی بامعنی نےنتائج نہ لاسکا۔
راجوری واقعے سے تعلقات میں دراڑ پیدا ہو گئی،اس نے دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان کسی بھی ممکنہ بات چیت سے روک دیا، کچھ طاقتیں دونوں ممالک کے درمیان امن کے کسی بھی امکان کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔