اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دورہ بھارت کا موضوع لگتا ہے ابھی کچھ دن مزید جاری رہے گا .
اسلام آباد اور دہلی دونوں ملکوں کی حکومتیں اور ترجمان اس ضمن میں اپنے اپنے موقف اور نکتہ نظر کی وضاحتوں کیساتھ خود کو گووا میں ہونیوالی بات چیت، پریس کانفرنس اور اجلاس کے موقع پر ہونیوالی سرگرمیوں کو اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں جس کا آغاز گوا میں ہی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے طرزعمل اور باڈی لینگوئج سے ہوگیا تھا, پھر انہوں نے پاکستانی ہم منصب کو دہشتگردی کی صنعت کا ترجمان، اسے فروغ دینے والا اور جواز فراہم کرنے والا قرار دیا تھا انکے اس طرزتکلم اور طرز میزبانی پر پاکستان میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور حکومتی شخصیات کے علاوہ سربرآوردہ سیاستدانوں کے علاوہ وزیر خارجہ کے سیاسی مخالفین نے بھی بھارتی وزیر خارجہ کے اس طرزعمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی جبکہ خود بھارت میں مثبت سوچ رکھنے والے میڈیا میں بھی بھارتی وزیر خارجہ کے اس غیرسفارتی انداز کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے .
دوسری طرف بلاول بھٹو نے بھی بھارت کی سرزمین پر ہی گووا میں پریس کانفرنس کرکے حساب برابر کر دیا تھا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اس یکطرفہ اقدام نے پاک بھارت تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے پھر وطن واپس پہنچنے پر بھی وزیر خارجہ نے پاکستان کے موقف اور خارجہ پالیسی کی بھرپور انداز میں وضاحت کرتے ہوئے اپنے اسی طرزعمل کو جاری رکھنے کا اعادہ بھی کیا .
اتوار کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن ملاقاتوں میں صرف انڈیا کے حوالے سے بات کی ریاست کرناٹک کے شہر میسور میں حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے مدعو کیا گیا تھا لیکن اگر آپ ایس سی او اجلاس کے باہر انکے بیانات دیکھیں تو انہوں نے صرف انڈیا کے حوالے سے بات کی، جیسے جی20، کشمیر اور بی بی سی کی ڈاکیومنٹری لیکن ایس سی او کے بارے میں کچھ نہیں بولامیں بطور میزبان کیا کروں؟
اگر میرے پاس کوئی اچھا مہمان ہے تو میں ایک اچھا میزبان ہوں لیکن، ہم نے پاکستانی وزیر خارجہ کو اسلئے مدعو کیا تھا کیونکہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا جب کثیر الجہتی اجلاس ہو تو آپ لوگوں کو اس موضوع پر گفتگو کیلئے بلاتے ہیں.
بلاول بھٹو کو پاکستان کے نمائندے کی حیثیت میں بلایا گیا تھا تاکہ وہ ایس سی او سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں ہم اختلاف کرسکتے ہیں انکا اپنا نقطہ نظر ہو سکتا ہے میرا اپنا نقطہ نظر، ایس سی او کا ایک میٹنگ روم ہے جہاں ہم بحث کرسکتے ہیں اور اختلاف بھی، انڈیا کی جانب سے ایران میں بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک پاکستان میں کچھ معجزانہ طور پر نہیں ہوتا انڈیا کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے تک رسائی کیلئے پاکستان کے ارد گرد راستہ تلاش کرنا ہو گا.
پاکستان کیساتھ دائمی دشمنی کے خول میں بند رہنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا یہ عقل کیخلاف ہے لیکن ہمیں لکیر کھینچنی ہوگی اگر کوئی پڑوسی مجھ پر حملہ کرتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ معمول کے مطابق کاروبار کرنا چاہئے۔