کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پراپرٹی ٹائیکون کو جو جرمانہ ہوا تھا وہ عمران خان نے دوبارہ اس کو ہی واپس کردیا، القادر ٹرسٹ اسکینڈل میں عمران خان پر ایک ایسا الزام لگا ہوا ہے جو اکیلے ہی اتنا بڑا ہے کہ آج سے پہلے پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم یا سابق وزیراعظم پر اتنی بڑی مالی بے ضابطگیوں کا الزام نہیں لگا ہے،ایک بڑے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کو پچاس ارب روپے کا فائدہ پہنچایا اور بدلے میں خود بھی فائدہ اٹھایا، اسکینڈل میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی براہ راست ملوث ہیں،وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وارنٹ کی عملدرآمد نیب کے ہاتھ میں تھی جس کو عدالت نے جائز قرار دیا ہے۔سینئر تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ کیس تو بادی النظر میں بہت تگڑا ہے، اس میں کوئی شکوک و شبہات نظر نہیں آتے۔ شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں مزید کہا کہ عمران خان کے کیس میں کوئی میرٹ بھی ہے اس پر اہم معلومات رکھیں گے میزبان نے کہا کہ القادر ٹرسٹ اسکینڈل میں عمران خان پر ایک ایسا الزام لگا ہوا ہے جو اکیلے ہی اتنا بڑا ہے کہ آج سے پہلے پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم یا سابق وزیراعظم پر اتنی بڑی مالی بے ضابطگیوں کا الزام نہیں لگا ہے، عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت میں ایک بڑے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کو پچاس ارب روپے کا فائدہ پہنچایا اور بدلے میں خود بھی فائدہ اٹھایا، عمران خان کی حکومت میں برطانیہ میں ایک پاکستانی بزنس ٹائیکون پر 190ملین پاؤنڈز یعنی اس وقت کی قدر کے حساب سے 50ارب روپے کا جرمانہ ہوا جو پاکستانی حکومت اور عوام کو ملنے تھے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کردی گئی جہاں پہلے ہی اس پراپرٹی ٹائیکون کے ذمہ 460ارب روپے واجب الادا تھے اور یوں پراپرٹی ٹائیکون کو جو جرمانہ ہوا تھا وہ عمران خان نے دوبارہ اس کو ہی واپس کردیا۔ پھر یہ خبر سامنے آئی کہ اس کی منظوری لینے کیلئے عمران خان کی سربراہی میں کابینہ کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں کابینہ سے بند لفافے میں موجود دستاویز کی منظوری کیلئے کابینہ اراکین کو بغیر دکھائے دستخط کرائے گئے۔ یعنی کابینہ اراکین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ لفافے میں کیا ہے اور کہا گیا کہ دستخط کردیں، گزشتہ دنوں اس اجلاس کی اندرونی کہانی بتاتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے انکشاف کیا تھا کہ شہزاد اکبر نے ایک سیلڈ لفافہ دکھایا، کابینہ اراکین کے اصرار کے باوجود اسے نہیں کھولا، ان کے علاوہ دو وزراء نے بھی سوالات اٹھائے مگر کابینہ سے منظوری لے لی گئی۔ خود عمران خان نے آج تک اتنے بڑے الزام کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے مگر فیصل واوڈا کہہ رہے تھے کہ کاروباری آدمی کوئی بھی چیز پلیٹ میں رکھ کر نہیں لیتا، بدلہ میں اس نے بھی بہت سی جگہوں پر فائدے دیئے ہیں تو یہ فائدہ کس نے لیا، یہ سب سے اہم سوال ہے۔ اس حوالے سے انصار عباسی کی خبر کے مطابق ریئل اسٹیٹ فرم سے متعلق 3دسمبر 2019ء میں ہونے والے کابینہ اجلاس کے کچھ دن بعد یعنی 26دسمبر 2019ء کو عمران خان نے القادر یونیورسٹی پراجیکٹ کیلئے ٹرسٹ کو رجسٹر کروایا، پھر کچھ مہینے بعدوہی ریئل اسٹیٹ فرم یونیورسٹی کیلئے ڈونر بن گئی، خبر کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈکی رجسٹریشن کے کچھ مہینوں کے اندر ریئل اسٹیٹ فرم نے جہلم میں تقریباً 460 کنال زمین خریدی اور اسے زلفی بخاری کے نام پر ٹرانسفر کردیا اور پھر ٹرسٹ بن جانے کے بعد زلفی بخاری نے یہ زمین ٹرسٹ کے نام پر منتقل کردی، پھر مارچ 2021ء میں عمران خان کی رہائش گاہ پر بشریٰ بی بی اور ریئل اسٹیٹ فرم نے ایک معاہدے پر دستخط کے ذریعہ زمین کی ڈونیشن اور انفرااسٹرکچر سمیت دیگر عطیات کو تسلیم کرلیا، یہ وہی اسکینڈل ہے جس کی انکوائری کو نیب نے انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا ہے اور آج عمران خان کو بھی گرفتار کرلیا ہے، اس اسکینڈل میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی براہ راست ملوث ہیں، آپ اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے دستخط اس معاہدے پر موجود ہیں جس میں بشریٰ بی بی نے اس پراپرٹی ٹائیکون کی ہاؤسنگ سوسائٹی سے زمین قبول کی ہے جس کو عمران خان نے فائدہ پہنچایا تھا، اپنی کابینہ کے ذریعہ پہنچایا تھا، حالانکہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اس پراپرٹی ٹائیکون کے 190ملین پاؤنڈز پکڑے تھے جو پاکستان کو ملنے تھے مگر اسی کو واپس دیدیئے گئے، اس ٹرسٹ کے چیئرمین بھی عمران خان خود بن گئے تھے جس کے خرچوں کی ذمہ داری بھی معاہدے کے تحت اسی پراپرٹی ٹائیکون کی ہاؤسنگ سوسائٹی پر ہے، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا کہ اس سارے عمل کیلئے عمران خان کے مشیرا حتساب شہزاد اکبر نے بھی 2ارب روپے رشوت لی تھی۔ہم نے پانچ دسمبر 2019ء کو اپنے پروگرام میں 190ملین پاؤنڈ کی ڈیل سے متعلق بیرسٹر شہزاد اکبر سے سوال کیا، تفصیلات شیئر کرنے پر اصرار کیا تو وہ چھپاتے رہے۔ یہ سب عمران خان کی حکومت میں ہورہا تھا جو احتساب کا نعرہ لگا کرآئی تھی، دوسروں پر کرپشن کا الزام لگاتی تھی، وہ یہ بتانے کو تیار نہیں تھی کہ برطانیہ سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے جو 190ملین پاؤنڈ پکڑے گئے ہیں وہ کس معاہدے کے تحت اسی کے واپس کردیئے گئے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: منیب فاروق سارا دن کیس کے میرٹس پر ہماری گفتگو ہوتی رہی، اب جبکہ عمران خا ن نیب کے پاس ہیں، انہوں نے عمران خان سے تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیٹی بھی بنادی ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین کا نوٹس کیا مگر عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق قرار دی، آپ کو کیس کہاں جاتا لگتا ہے؟ منیب فاروق: کیس کے جو میرٹس اور مواد ہے اس حساب سے conflict of interest کا واضح کیس ہے، اس کے اندر ہوا میں تحلیل ہوتی ہوئی کوئی بات نہیں ہے، القادر ٹرسٹ اور اس کی زمین موجود ہے، میں نے اس روٹ پر ٹریول بھی کیا ہے، میں بھی بتاسکتا ہوں یہ زمین کس جگہ پر ہے اور اس جگہ کو ہی اس زمین کیلئے کیوں allocate کیا گیا اور اس ٹرسٹ کو کیوں بنایا گیا، یہ چیزیں تو موجود ہیں، ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ان کے زیرانتظام کسی ذیلی ادارے میں یہ ہورہا تھا اور انہیں اس کی خبر نہیں تھی، it went up till the cabinet وہاں پر ڈسکس بھی ہوا اور اب ریکارڈ کا حصہ ہے، اب وہ ریکارڈ کی شکل میں پوری پیپر ٹریل موجود ہے، عمران خان کے حوالے سے شواہد بھی موجود ہیں، کابینہ کے سابق ممبر بھی بتارہے ہیں کہ کیا چیز exist کرتی ہے، کیس تو بادی النظر میں بہت تگڑا ہے، اس میں کوئی شکوک و شبہات نظر نہیں آتے۔ شاہزیب خانزادہ: تحریک انصاف یہ جو بار کہتی ہے کہ ایک ٹرسٹ اور یونیورسٹی ہے، اس میں عمران خان کا کیا فائدہ یا conflict ہوگیا اگر ایک بزنس ٹائیکون سے لے لی، بے شک اسے 190ملین پاؤنڈ کا فائدہ پہنچابھی دیا گیا، ذاتی فائدہ کیا لیا؟ منیب فاروق: ذاتی فائد ہ اس صورت میں کہ ان کی اہلیہ کا نام اور عمران خان کا نام اس میں reflect کرتا ہے، یہ بات جو پراپرٹی ٹائیکون ہے جن کے حوالے سے یہ ساری بات ہورہی ہے یہ فیور انہی سے کیوں لی گئی، اور کوئی بھی کاروباری شخصیت جیسے فیصل واوڈا نے کہا اور درست کہا کہ کوئی بھی کاروباری شخصیت کسی حاکم وقت کو کیوں فائدہ پہنچائے گا؟ اسی صورت میں پہنچائے گا جب اس کو خود کسی طرح کا فائدہ ملا ہو۔ عمران خان اور ان کی حکومت نے فائدہ دیا ہوگا اس کے جواب میں ہی وہ فائدہ ملا۔ اگر معاملہ صرف پیسے کے ریٹرن تک ہوتا تو بات کچھ اور تھی لیکن یہاں اس کے بعد جو کچھ ہوا ہے اس کے تانے بانے بنے جاسکتے ہیں، آپ 9اے کی definition جو اب نیب قانون میں لبرل بھی کردی گئی ہے پھر بھی ایسی definition کے اندر یہ تمام معاملات آتے ہیں، کرپٹ پریکٹس بھی establish کی جاسکتی ہے، اگر نیب نے اپنا ہوم ورک ٹھیک کیا ہے۔