• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اہم موقعے پر جب سائنس دان دنیا کو ماحولیاتی تباہ کاریوں کی جانب متوجّہ کر رہے تھے،تو امریکا کے متلوّن مزاج صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کا مذاق اُڑاتے ہوئے بیان دیا کہ’’یہ سائنس دان دنیا کو بلیک میل کر رہے ہیں۔‘‘بے شک، کسی بھی باشعور شخص نے اُن کے اِس بیان کی حمایت نہیں کی، کیوں کہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے ماحولیاتی تباہیاں دیکھ رہا ہے۔

یوں تو اِس تباہی و بربادی کے بہت سے اسباب ہیں، لیکن پلاسٹک کی مصنوعات سے جنم لینے والے مسائل اِس لحاظ سے زیادہ سنگین ہیں کہ اِن سے انسان اور دیگر مخلوقات براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس5 جون کو(کل)’’ عالمی یومِ ماحولیات‘‘، پلاسٹک سے درپیش مسائل سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے سلوگن کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔واضح رہے، اِس دن کو منانے کا فیصلہ1972 ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور پھر دو سال بعد یعنی1974 ء میں پہلی بار اسے عالمی سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔

’’پلاسٹک کی دنیا‘‘

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ گھروں میں عام طور پر مٹّی، پیتل یا اسٹیل کے برتن استعمال کیے جاتے تھے، پھر کانچ کے برتنوں کا رواج ہوا اور اب ہر طرف پلاسٹک ہی پلاسٹک ہے۔ دودھ لینے جاتے، تو ہاتھ میں چھوٹی بالٹی یا کوئی اور برتن ہوتا، روٹیوں کے لیے رومال ساتھ لے لیتے، قصاب اخبار میں لپیٹ کر گوشت دیتا، سموسوں، پکوڑوں کے لیے بھی اخبارات کی ردی استعمال کی جاتی، سبزیوں اور دیگر سودا سلف کے لیے کپڑے کا تھیلا یا کھجور کے پتّوں سے بنی ٹوکری سے کام چلایا جاتا، خاکی رنگ کے کاغذ کی تھیلیوں کا استعمال عام تھا، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب چیزیں غائب ہونا شروع ہوئیں اور ان کی جگہ پلاسٹک سے بنی اشیا نے لے لی۔

گھروں، ریستورانوں میں پلاسٹک کے برتن آگئے، سودا سلف پلاسٹک کی تھیلیوں میں آنے لگا۔پلاسٹک کا فرنیچر متعارف ہوا، اشیائے خورو ونوش کے لیے پلاسٹک کے ڈبّے، پلیٹس، چمچ اور گلاس آگئے۔اِس وقت ہمارے سامنے موبائل فون، کمپیوٹر ایل سی ڈی، ماؤس، کی بورڈ اور پانی کی بوتل موجود ہیں اور ان سب کا بڑا حصّہ پلاسٹک ہی پر مشتمل ہے۔ ہماری میز، کرسی، جوتے، یہاں تک کہ قلم بھی پلاسٹک ہی سے تیار کردہ ہیں۔ ہماری ٹرانسپورٹ، تعمیراتی، آرائشی اشیاء، طبّی آلات سبھی کچھ تو پلاسٹک کے مرہونِ منت ہے۔

پچھلی صدی کے نصف آخر میں پلاسٹک نے اپنے حریفوں کو پچھاڑنا شروع کیا اور اب یہ پوری طرح مارکیٹ پر چھا چُکا ہے۔ایک عالمی ادارے کے مطابق 1950ء میں پلاسٹک کی پیداوار20 لاکھ ٹن تھی، 2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر38 کروڑ ٹن تک پہنچی اور اب یہ40 کروڑ ٹن کی حد کو چُھو رہی ہے۔اگر پاکستان کی بات کریں، تو یہاں سالانہ55 ارب کے قریب پلاسٹک کی تھیلیاں تیار کی جاتی ہیں، جب کہ پلاسٹک سے بنی دیگر اشیاء بھی بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں موجود ہیں۔ پاکستان، جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد پلاسٹک کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے۔ یوں آج ہم گویا پلاسٹک کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔

دنیا کو پلاسٹک سے کیا مسئلہ ہے؟

ماحولیاتی اور طبّی ماہرین اِس ضمن میں دنیا کو دو امور کی جانب متوجّہ کر رہے ہیں۔ایک پلاسٹک کے کچرے سے پیدا ہونے والے مسائل اور دوسرا، پلاسٹک کے استعمال سے انسانی صحت کو درپیش خطرات۔ دنیا میں سالانہ400 ملین ٹن پلاسٹک کی پیداوار ہے، جس کے کچرے میں سے10 فی صد کو تو دوبارہ قابلِ استعمال بنا لیا جاتا ہے، جب کہ باقی 90 فی صد کچرا گلی محّلوں میں موجود رہتا ہے یا وہ ندی، نالوں، سیوریج لائنز سے ہوتا ہوا سمندروں کا رُخ کرتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً23 ملین ٹن پلاسٹک جھیلوں، دریاؤں اور سمندر کا حصّہ بن کر آبی ماحول کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے، جب کہ شہروں میں بھی پلاسٹک کے کچرے سے ہونے والے نقصانات جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 30 لاکھ ٹن کے قریب پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں شاپنگ بیگز، بوتلوں اور اُن کے ڈھکنوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ماہرین، پلاسٹک کی تھیلیوں کو ماحول کے لیے نہایت خطرناک قرار دیتے ہیں،جنھیں ایک بار استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے اور پھر یہ اِدھر اُدھر اُڑتی پِھرتی ہیں، جب کہ انھیں زمین میں جذب ہونے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ 

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق پاکستان میں سالانہ55 ارب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جا رہی ہیں، جو پاکستان میں تیار ہونے کے ساتھ باہر سے بھی منگوائی جاتی ہیں، جب کہ ان کے استعمال میں ہر سال 15 فی صد اضافہ بھی ہو رہا ہے۔اِس ضمن میں جامعہ کراچی میں برسوں تدریس سے وابستہ رہنے والے معروف ماہرِ ماحولیات، رفیع الحق کا کہنا ہے’’ جو چیز ماحول میں ضم نہ ہو یا اُس کا حصّہ نہ بن سکے، وہ نقصان دہ ہوتی ہے، جیسے کہ پلاسٹک۔ اِس پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ پلاسٹک مٹّی میں ملنے یا گلنے سڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تو اِس طرح یہ پورے ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔اِس کے برعکس، دیگر اشیاء چند روز میں تحلیل ہوجاتی ہیں، درختوں کے پتّوں ہی کو دیکھ لیں۔

جب وہ سوکھ کر یا کسی اور وجہ سے جَھڑ کر زمین پر گرتے ہیں، تو چند روز تک تو اُن سے عجیب سی بُو آتی ہے اور پھر وہ مٹّی کا حصّہ بن جاتے ہیں۔‘‘اِسی حوالے سے ماہرِ ماحولیات اور’’ ٹیم گرین‘‘ کے روحِ رواں، فائق سلیم کا کہنا ہے کہ’’پلاسٹک کا کچرا دنیا کی بقا کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے کہ ایک طرف تو اِس سے آبی حیات ناپید ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں، تو دوسری طرف، اس سے آلودگی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ پلاسٹک کے کچرے کو تلف کرنے کے لیے اُسے جمع کرکے جلا دیتے ہیں اور اُن کے نزدیک اِس کا یہی حل ہے، مگر اس کے نتیجے میں ہمارے ماحول میں خطرناک گیسز داخل ہو جاتی ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔‘‘

شہری نظام میں خلل

چند روز قبل آفس جاتے ہوئے دیکھا کہ ہمارے محلّے کی ایک گلی میں گندا پانی بَھرا ہوا تھا اور ایک شخص گٹر میں اُتر کر صفائی کر رہا تھا۔ چندو نامی اُس شخص نے ہمارے پوچھنے پر بتایا کہ’’ مَیں تقریباً35 برس سے یہ کام کر رہا ہوں اور میرا تجربہ یہی ہے کہ سیوریج لائنز کی بندش کی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں۔‘‘یہ صرف ایک گلی یا کسی خاص محلّے کی کہانی نہیں، بلکہ شہروں اور قصبات میں جہاں کہیں سیوریج لائنز بلاک ہوتی ہیں، اُن کی وجہ زیادہ تر پلاسٹک کی تھیلیاں ہی بنتی ہیں۔اِس معاملے کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جہاں کہیں پانی کھڑا ہو، وہاں یہ تھیلیاں اور پلاسٹک کی دیگر اشیا تیرتی نظر آئیں گی۔

اِن تھیلیوں میں کچرا بَھر جاتا ہے اور پھر یہ سیوریج لائن بند کر دیتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بنگلا دیش نے اِسی وجہ سے اِن تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عاید کی تھی کہ ان ہی کی وجہ سے سیلابی پانی کی شہروں سے نکاسی نہیں ہو پاتی تھی۔اگر آپ کبھی آتے جاتے کچرے کے کسی ڈھیر پر نظر ڈالیں، تو یہ بات محسوس کریں گے کہ بیش تر کچرا پلاسٹک ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔یوں اِس کی وجہ سے شہروں میں صفائی کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔چند برس قبل کراچی میں تباہ کُن بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی، اُس کی ایک بڑی وجہ یہی کچرا تھا، جس نے شہر کے ندی نالوں کو بند کر رکھا تھا، جب ان نالوں، خاص طور پر گجر نالہ اور محمود آباد نالے کی صفائی ہوئی، تو اُن سے نکلنے والے کچرے کا زیادہ حصّہ پلاسٹک کی تھیلیوں ہی پر مشتمل تھا۔

سمندر سے جدید تیکنیک کے ذریعے پلاسٹک کے ٹکڑے نکالے جارہے ہیں
سمندر سے جدید تیکنیک کے ذریعے پلاسٹک کے ٹکڑے نکالے جارہے ہیں 

مچھلیاں کہاں ٹھکانہ بنائیں؟

چند برس قبل تک آبی حیات کے بے گھر اور ناپید ہونے سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا جاتا تھا، وہ اب حقیقت کا رُوپ دھارتے نظر آتے ہیں۔سمندر کچرے سے بَھرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے اب وہاں مچھلیوں، کچھووں اور دیگر جان داروں کا زندہ رہنا محال ہو چُکا ہے۔کچھ عرصہ قبل امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل پر نیم مردہ حالت میں ملنے والے ایک کچھوے کے بچّے کے پیٹ سے پلاسٹک کے 104 ٹکڑے برآمد ہوئے۔اِسی طرح فلپائن کے ساحل سے ملنے والی مُردہ وہیل مچھلی کے پیٹ سے40 کلو پلاسٹک کا کچرا برآمد ہوا۔انڈونیشیا سے خبر آئی کہ وہاں کے کپوٹا جزیرے کے ساحل کے قریب سے ملنے والی مُردہ اسپرم وہیل کے معدے سے تقریباً چھے کلوگرام پلاسٹک نکلا۔ان میں115 کپ، چار پلاسٹک کی بوتلیں،25 پلاسٹک بیگز اور دو ہوائی چپلیں شامل تھیں۔ 

تھائی لینڈ کے جنوبی حصّے میں80 پلاسٹک بیگز نگلنے کی وجہ سے ایک وہیل ہلاک ہوئی۔ماہرین کے مطابق معدہ کچرے سے بَھرا ہونے کی وجہ سے وہیل، کچھوے یا دیگر مچھلیاں کچھ کھا نہیں سکے، یوں بھوک کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔اے ایف پی کی حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے سمندروں کی سطح پر پلاسٹک کے 170 ٹریلین ٹکڑے، خاص طور پر مائکرو پلاسٹکس موجود ہیں۔ہمارا گزشتہ دنوں کراچی کے ساحل پر جانا ہوا، تو اگرچہ وہاں عوام کے لیے سمندر میں کچرا نہ پھینکنے کی ہدایات پر مشتمل بورڈز لگے ہوئے تھے، مگر اس کے باوجود جگہ جگہ کچرا، خاص طور پر پلاسٹک کی تھیلیاں اور بوتلیں پڑی دِکھائی دیں، جو ہوا اور لہروں کے ذریعے سمندر کا حصّہ بن رہی تھیں۔اِس حوالے سے وہاں موجود ایک اہل کار سے بات کرنے کی کوشش کی، تو وہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا’’ کس کس کو روکیں، لوگ سدھرنا نہیں چاہتے، تو ہم کیا کریں۔‘‘

اگر آپ سی ویو جائیں اور کچھ دیر پانی میں گزاریں، تو آپ کے قدموں میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا ڈھیر لگ جائے گا۔ گزشتہ دنوں ایک ادارے کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے ساحل سے حاصل کی گئی ایک گرام ریت میں مائکرو پلاسٹک کے 300 سے زائد ذرّات پائے گئے۔ سمندر میں مسلسل سیوریج کا پانی ڈالا جا رہا ہے، جب کہ یومیہ کئی ہزار ٹن کچرا بھی پھینکا جا رہا ہے، جس میں زیادہ تر پلاسٹک کا کچرا شامل ہوتا ہے۔حالاں کہ مچھلیاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھنس جاتی ہیں، تو وہ حرکت نہیں کر پاتیں اور نتیجتاً کچھ کھا بھی نہیں پاتیں، جب کہ کچھووں سمیت کئی جان دار پلاسٹک کی اشیاء کو خوراک سمجھ کر کھا لیتے ہیں اور پھر ہضم نہیں کر پاتے۔

رفیع الحق
رفیع الحق 

کچھ عرصہ قبل کرکٹ اسٹار، وسیم اکرم اور اُن کی اہلیہ، شنیرا نے سی ویو پر گندگی کے خلاف آواز اُٹھائی تھی، جس کے بعد وہاں کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، مگر کچرا بدستور سمندر تک پہنچ رہا ہے۔ماہرِ ماحولیات، رفیع الحق کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’مچھلیوں اور کچھووں وغیرہ کا غذا حاصل کرنے کا نظام ہم سے کافی مختلف ہے، وہ پلاسٹک کی اشیاء سے دھوکا کھا جاتے ہیں، جیسے بچّے کوئی بھی چیز اُٹھا کر منہ میں ڈال لیتے ہیں۔پھر ان پلاسٹک کے ٹکڑوں سے ان کے ہاضمے اور سانس کے نظام کو بُری طرح نقصان پہنچتا ہے، جس سے اُن کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔دنیا اپنے ساحلوں اور سمندروں کی صفائی کے لیے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جن پر خطیر رقم خرچ ہو رہی ہے، مگر ہمیں سیاسی لڑائیوں ہی سے فرصت نہیں ملتی۔‘‘

فائق سلیم
فائق سلیم 

فائق سلیم کی رائے ہے کہ ’’شہر کی مختلف ندی نالوں سے آنے والا گندا پانی کچرے سے اَٹا ہوتا ہے،جسے اِسی حالت میں سمندر میں ڈالا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے تقریباً پورے ساحل پر پلاسٹک کی تھیلیاں اور بوتلیں تیرتی نظر آتی ہیں۔ اِس آبی آلودگی کی وجہ سے کئی طرح کی مچھلیاں اور سمندری جانور اب نظر نہیں آتے، شاید اُن کی نسل معدوم یا محدود ہوچکی ہے۔ہم نے ساحل کی صفائی کی کئی بار مہم چلائی ہے، جس میں نوجوانوں، خاص طور پر طلبا و طالبات نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، مگر اِس ضمن میں عوامی شعور اجاگر کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ سمندر کچرے سے محفوظ رہ سکے۔‘‘

انسانی صحت بھی داؤ پر ہے

بہت سے کاروباری افراد اپنی دُکانوں وغیرہ میں جھاڑو دے کر کچرا باہر اکٹھا کرکے اُسے نذرِ آتش کردیتے ہیں، جب کہ کچرا کنڈیوں میں بھی کچرا جلانا عام بات ہے، حالاں کہ ماہرین کے مطابق یہ عمل انسانی صحت اور ہمارے ماحول کے لیے بہت خطرناک ہے۔ڈاکٹر فائزہ آفاق نے کمیونٹی میڈیسن میں ایم فِل کیا ہے اور فاطمہ جناح میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور کے شعبہ کمیونٹی میڈیسن میں تدریسی خدمات بھی سر انجام دیتی رہی ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی سابق صدر ہیں اور اِن دنوں پیما کی سینٹرل ایگزیکٹیو کاؤنسل کی رُکن ہیں۔ میڈیکل ریلیف اور عوامی آگاہی کے شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔

پلاسٹک سے متعلقہ مسائل کے ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’بیسویں صدی کے اوائل میں پلاسٹک کی صنعت متعارف ہوئی اور جلد ہی اس نے برتنوں اور عمومی استعمال کی اشیاء میں اپنی جگہ بنالی۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں اس کے مضر اثرات سامنے آنے لگے اور گزشتہ برسوں میں یہ ثابت ہوگیا کہ پلاسٹک بننے کے ابتدائی مراحل سے اتلاف تک بے شمار بیماریوں کا باعث بنتا ہے، جن میں کینسر، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں نمایاں ہیں۔دراصل پلاسٹک، پیٹرولیم مصنوعات سے بنایا جاتا ہے، جن میں ہائیڈرو کاربن پائے جاتے ہیں اور جو صحت کے لیے مضر ہیں۔ پلاسٹک قدرتی طور پر فضا میں کئی سو سال تک باقی رہ سکتا ہے، اگر اسے جلایا جائے یا حرارت پہنچے، تو کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، بینزو پائرن اور ڈائیوکسن بنتے ہیں، جو نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، بلکہ آبی و دیگر زمینی مخلوقات کے لیے بھی تباہ کُن ہیں۔

ان کیمیکلز سے زمین کے اردگرد حفاظتی اوزون کی تہہ ختم ہوتی ہے، سورج کی الٹرا وائلٹ شعاؤں سے جِلد کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے، گلیشئیرز پگھلنے سے سیلاب اور بخارات سے بے موسمی بارشیں بڑھ جاتی ہیں۔درحقیقت، ہم نے اپنی اور دوسری تمام مخلوق کی بقا کو اِس صنعت کے ذریعے داؤ پر لگا دیا ہے۔پلاسٹک کے برتن میں گرم کھانا ڈالنے یا اس میں کھانا گرم کرنے سے بھی انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ہمیں حفظانِ صحت کے اصول مدِنظر رکھتے ہوئے پلاسٹک کی بجائے کاغذ کے شاپر، شیشے کی بوتلیں، مٹّی یا اسٹیل کے برتن استعمال کرنے چاہئیں۔‘‘یہ بھی یاد رہے کہ آسٹریلین یونی ورسٹی کے اشتراک سے سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق، ہر شخص ہفتے میں تقریباً پانچ گرام پلاسٹک نگل جاتا ہے۔

کام تو ہو رہا ہے…

عالمی برادری پلاسٹک سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے میں بہت سنجیدہ ہے اور اِس ضمن میں کئی اقدامات بھی کیے جار ہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام کینیا میں ماحولیات سے متعلق کانفرنس ہوئی، جس میں112 ممالک کے حکّام سمیت پانچ ہزار ماہرینِ ماحولیات، سائنس دانوں اور کاروباری افراد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پلاسٹک کی مصنوعات کی روک تھام اور سمندروں کو پلاسٹک کے کچرے سے محفوظ بنانے کے اقدامات پر غور ہوا۔مختلف ممالک کی جانب سے اِس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے سمندوروں کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے عملی مظاہرے بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

پھر بہت سی این جی اوز بھی سمندروں کی صفائی کا کام کر رہی ہیں۔کئی ممالک میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عاید ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی کروایا جا رہا ہے۔اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں افریقی ممالک، جیسے کینیا، روانڈا اور تنزانیہ وغیرہ، سب سے آگے ہیں۔پاکستان میں بھی کئی بار تھیلیوں پر پابندی کی باتیں ہوئیں، مگر کوئی عملی صُورت نظر نہیں آئی، البتہ 2019ء میں پہلی بار اِس سمت کچھ سنجیدہ اقدامات ہوتے دیکھے گئے۔ حکومت نے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے جرمانوں کا بھی اعلان کیا، جس کے تحت خریدار پر پانچ ہزار روپے، بیچنے والے پر 10 سے50 ہزار روپے اور ایسی تھیلیاں بنانے والوں پر ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ عاید کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم، یہ مہم کچھ روز ہی جاری رہ سکی، جس کے دوران چھاپے مارے گئے، گرفتاریاں ہوئیں، جرمانے ہوئے اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ لائٹ ہاؤس مارکیٹ کے سامنے واقع پلاسٹک کی تھیلیوں کے درمیانے درجے کے ایک ہول سیلر سے اِن چھاپوں سے متعلق پوچھا، تو اُنھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا’’پولیس اور افسران کو جو چاہیے تھا، وہ اُنھیں دے دیا گیا۔بھائی! یہ مسائل پولیس کے حل کرنے کے نہیں ہیں، اِس کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔‘‘

عوامی آگاہی، قانون پر عمل درآمد ہی حل ہے

اِس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پلاسٹک نے ہماری روز مرّہ زندگی میں کچھ اِس طرح قدم جما لیے ہیں کہ اب اِس کے بغیر رہنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے جسم پر موجود لباس میں پلاسٹک ہے، تو جن مشینز پر یہ تیار ہوتا ہے، وہ بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ ہماری ٹرانسپورٹ، فرنیچر، برتن، پوری پیکیجنگ انڈسٹری، برقی و طبّی آلات، غرض کہ ہم مکمل طور پر پلاسٹک کے نرغے میں ہیں، ایسے میں یہ کہنا کہ دنیا پلاسٹک سے مکمل طور پر جان چُھڑا لے،ایک غیر حقیقی بات ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں پلاسٹک ہمیں سہولتیں فراہم کرتا ہے، وہیں یہ ماحول کی آلودگی کا بھی سبب ہے۔

اِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایک طرف تو عوام کو پلاسٹک سے متعلقہ مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے، جس میں نوجوانوں کو خاص طور پر شامل کیا جائے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو سمجھنے اور پیغام آگے پھیلانے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ دوسری طرف، پلاسٹک کے کچرے کو عالمی اصولوں کے مطابق تلف یا ری سائیکل کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ نیز، پلاسٹک کی پتلی تھیلیوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور یہ بھی کہ وہ قوانین قابلِ عمل ہوں اور اُن کا نفاذ نظر بھی آئے، اِس مقصد کے لیے انڈسٹری اور صارفین کے مسائل کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے چیلنجز بھی پیشِ نظر رہنے ضروری ہیں۔

’’ مسئلہ پلاسٹک نہیں، پالیسی سازی اور قوانین پر عمل درآمد کا ہے‘‘، پاکستان پلاسٹک مینو فیکچرز ایسوسی ایشن

پلاسٹک سے متعلق مختلف خدشات، رپورٹس، مسائل اور ممکنہ حل پر پاکستان پلاسٹک مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے رہنما اور انوائرمنٹ کمیٹی کے کنوینئر، احتشام الدّین سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ اسٹیل اور پیتل کے مقابلے میں پلاسٹک زیادہ ماحول دوست ہے، جس سے اس کے استعمال میں اضافہ ہوا، مگر اب اسے نقصان دہ بتایا جا رہا ہے۔ 

اِس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک پلاسٹک کی تھیلیاں اور دوسری، پلاسٹک کا کچرا۔ جہاں تک تھیلیوں کی بات ہے، تو ہم نے ہمیشہ اِس بات کی حوصلہ افزائی کی ہے اور حکومت سے مکمل تعاون کیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں، جن سے ایک طرف انڈسٹری چلتی رہے، جس سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور دوسری طرف، ماحولیاتی مسائل سے بھی نمٹا جاسکے۔ ہم نے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر متعلقہ اداروں کو اِس ضمن میں کئی تجاویز بھی دیں۔ 

پھر حکومتِ سندھ سے معاہدہ ہوا کہ تھیلیوں کا گیج موٹا کردیا جائے تاکہ وہ وزنی ہونے کے بعد اُڑتی نہ پِھریں۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ جب ہمارے ہاں کوئی سامان پلاسٹک کی کسی موٹی تھیلی میں آتا ہے، تو اُس تھیلی کو سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے، جب کہ باقی تھیلیاں کچرے میں پھینک دی جاتی ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ ہم نے معاہدے کے مطابق موٹے گیج کی تھیلیاں بنانی شروع کیں، تو مختلف علاقوں اور بیرونِ ممالک سے وہی پتلی تھیلیاں مارکیٹ میں آنے لگیں، جو قیمت میں بہرحال سستی بھی ہیں، تو اس سے ہمارا کام ٹھپ ہوگیا اور پھر یہاں بھی لوگ دوبارہ وہی پتلی تھیلیاں بنانے لگے۔ہم تو اپنے ارکان کو قوانین پر عمل درآمد کا مشورہ یا ترغیب ہی دے سکتے ہیں، ماحول بنانا تو حکومت اور متعلقہ اداروں کا کام ہے، جو وہ نہیں کرسکے۔ جہاں تک پلاسٹک کے کچرے کی بات ہے، تو یہ خالصتاً ایک انتظامی اور عوامی شعور کا معاملہ ہے۔

اگر کپڑے کے تھیلے متعارف کروائے جائیں، تو لوگ اُنھیں بھی اِسی طرح گلی محلّوں اور نالوں میں پھینکتے پِھریں گے،جیسے پلاسٹک کی تھیلیوں کو پھینکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو عام طور پر نہیں پھینکا جاتا اور اگر کہیں پڑی بھی ہوں، تو کچرا چُننے والے اُنھیں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور یہ دوبارہ کام میں آجاتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انھیں قیمت ملتی ہے، اِسی طرح اگر پلاسٹک کی استعمال شدہ تھیلیوں کو بھی قیمتی بنا دیا جائے، تو لوگ انھیں بھی اکٹھا کرتے نظرآئیں گے۔اِس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ موٹی تھیلیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ لوگ اُنھیں دوبارہ استعمال کے لیے سنبھال کر رکھیں اور دوسری بات یہ کہ بھارت اور برطانیہ کی طرح ان تھیلیوں کو تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ 

وہاں ان تھیلیوں کو ریوڑی کی شکل دے کر سڑکوں کی کارپیٹنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔اسلام آباد میں بھی پچھلے دنوں استعمال شدہ پلاسٹک سے ایک کلومیٹر طویل سڑک بنائی گئی ہے۔پلاسٹک کو ری سائیکل تو کیا جارہا ہے،مگر ایک تو یہ کام ابھی بہت محدود ہے اور اس میں بھی ابھی بہت سے مسائل ہیں، جنھیں حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے زمینی حقائق کے مطابق پالیسی بنانی چاہیے اور قوانین پر عمل درآمد کے لیے ایسا طریقہ وضع کرنا چاہیے، جس سے مسائل حل ہوں، نہ کہ پوری انڈسٹری کو پولیس یا چند افسران کے حوالے کردیا جائے۔‘‘

ایک قابلِ تقلید مثال…

سلمان عبداللہ کا خاندان 160 سال سے کیماڑی میں آباد ہے۔ اُن کی زندگی ساحل ِسمندر پر کھیلتے گزری، اپنے بزرگوں سے سمندر کے بارے میں بہت کچھ سُنا اور سیکھا۔ پھر یہ کہ ملازمت بھی اِسی شعبے میں مل گئی۔ 

سمندر، سمندری حیات اور ماحول اُن کی دل چسپی کے خاص موضوعات ہیں۔ اِس حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کوشاں ہیں کہ کچرا، خاص طور پر پلاسٹک کا کچرا، گلی محلّوں یا ندی نالوں میں نہ پھینکیں کہ یہ انسانوں اور آبی حیات کے لیے موت کا پیغام ہے۔ 

اُن کے گھر پلاسٹک کی جو بھی تھیلی آتی ہے، اُسے اُسی حالت میں کچرے دان کا حصّہ نہیں بنایا جاتا، بلکہ وہ اُسے پہلے اچھی طرح کمپریس کرتے ہیں اور پھر اُس میں گانٹھیں لگا کر رکھ لیتے ہیں، جب اس طرح کا کافی کچرا جمع ہوجاتا ہے، تو چُھٹّی کے دن اُسے افتادہ مقام پر زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔